صدیوں سے، اہرامِ مصر اپنے پراسرار ڈھانچے اور غیر معمولی تعمیراتی مہارت کی وجہ سے سائنسدانوں، مؤرخین، اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں کچھ نظریہ ساز اور آزاد محققین ایک دلچسپ قیاس آرائی پر زور دے رہے ہیں
حالیہ حیران کن دریافتیں
جدید ریڈار کی مدد سے ہونے والی حالیہ تحقیق میں ایک پیچیدہ زیرِ زمین نظام کا انکشاف ہوا ہے جو تقریباً دو کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور گیزا کے تینوں بڑے اہرام کو آپس میں جوڑتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق، اہرامِ گیزا کی بنیاد میں پانچ یکساں کثیر المنزلہ انفرا اسٹرکچر دریافت ہوئے ہیں جو آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ ان میں درج ذیل خصوصیات شامل ہیں:
آٹھ انتہائی لمبے کنویں، جن کے گرد سیڑھیاں لپٹی ہوئی ہیں، جو سطح سے 648 میٹر نیچے جاتی ہیں۔
یہ کنویں آخر میں دو مکعب نما کمروں میں جا کر ملتے ہیں، ہر کمرے کا سائز 80×80 میٹر ہے۔
یہ دریافت اس روایتی تصور کو چیلنج کرتی ہے کہ اہرامِ مصر صرف شاہی مقبرے تھے۔
توانائی پیدا کرنے کے نظریات
ماضی میں کئی محققین کا خیال رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اہرام توانائی پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے ہوں۔ یہ نظریہ کچھ مشہور سائنسدانوں اور انجینئرز کے خیالات سے بھی مماثلت رکھتا ہے:
نکولا ٹیسلا کا نظریہ: مشہور سائنسدان نکولا ٹیسلا کا ماننا تھا کہ اہرامِ مصر زمین کی قدرتی توانائی کو جمع اور استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ زمین کی برقی توانائی کو بغیر تار کے منتقل کرنے کے نظریے پر کام کر رہے تھے، جو ممکنہ طور پر اہرام کے قدیم فن تعمیر سے متاثر ہو سکتا ہے۔
کرسٹوفر ڈن کا نظریہ: معروف انجینئر کرسٹوفر ڈن نے دعویٰ کیا کہ اہرام دراصل ایک مشین ہیں جو زمین کی حرکت کو توانائی میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ ان کے مطابق، اہرام میں موجود سرنگیں اور چیمبرز ممکنہ طور پر ریزوننس چیمبرز کے طور پر کام کرتے تھے، جو مخصوص تعدد پر ارتعاش پیدا کر کے توانائی پیدا کر سکتے تھے۔
سائنسدان کیا کہتے ہیں ؟
سائنسدانوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان نظریات کے پیچھے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں اور یہ محض قیاس آرائیاں ہیں۔ آرکیالوجی اور فزکس کے ماہرین کے مطابق، اگرچہ اہرام کی جیومیٹری توانائی کی کچھ اقسام کو متاثر کر سکتی ہے، لیکن یہ کہنا کہ یہ کسی توانائی کے نیٹ ورک کا حصہ تھے، اب تک سائنسی بنیادوں پر ثابت نہیں ہو سکا۔
کیا مستقبل میں کوئی نئی دریافت ہو سکتی ہے؟
حالیہ برسوں میں جدید ٹیکنالوجی جیسے گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار (GPR) اور 3D اسکیننگ کے ذریعے اہرام کے نیچے مزید سرنگوں اور کمروں کی موجودگی کا پتہ چلا ہے۔ اگر مزید تحقیق کی جائے تو ممکن ہے کہ ہمیں کچھ ایسے شواہد مل سکیں جو ان نظریات کو تقویت دیں یا یکسر مسترد کر دیں۔
توانائی کے قدیم نیٹ ورکس سے متعلق قیاس آرائیاں دلچسپ ضرور ہیں، لیکن سائنسی تصدیق کے بغیر انہیں حقیقت ماننا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم، یہ بات طے ہے کہ اہرامِ مصر ایک شاندار اور حیرت انگیز معماری کا نمونہ ہیں، جو آج بھی دنیا کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہیں۔