پاکستان میں 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد وفاق اور چاروں صوبوں میں حکومت سازی کا عمل 4 مارچ 2024ء تک مکمل ہوا۔ وفاق میں پاکستان مسلم لیگ نواز (PMLN) اور اتحادی کی مدد سے میاں محمد شہباز شریف وزیر اعظم، پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز (PMLN)کی مریم نواز شریف، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی (PPPP) کے سید مراد علی شاہ، خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے حمایت یافتہ علی امین گنڈاپور اور بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی (PPPP) اور اتحادیوں کی مدد سے سرفراز احمد بگٹی وزرائےاعلیٰ منتخب ہوئے۔ "ٹائمز آف کراچی” نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پہلے سال کو مدنظر رکھ کر وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی مجموعی کارکردگی، اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں کمی یا اضافہ، سیاسی استحکام، گورننس اور تحریک کے حوالے سے ایک سال کی رپورٹ بمع چارٹ تیار کیا ہے۔
حکومتوں کا ایک سال!
وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کے پہلے سال کی حوالے سے رپورٹ کی تیاری کے دوران "ٹائمز آف کراچی” نے ادارہ شماریات پاکستان (PBS) اور مختلف اداروں کے اپنے اعدادوشمار، مختلف شعبوں سے منسلک افراد کے تجزیات اور مشاہدات سے مدد لی ہے، تاہم چارٹ میں بنیادی حصہ ادارہ شماریات پاکستان کے اعدادوشمار کا ہی ہے۔ رپورٹ کی تیاری کے دوران ملک کے 17 مختلف شہروں میں اشیاء کی مختلف مارکیٹوں کی الگ الگ قیمتوں کی وجہ سے چارٹ میں صرف قومی سطح کی اوسط اور دیگر ذرائع سے حاصل اعدادوشمار شامل کیاگیاہے۔ رپورٹ میں بیشتر اعداد و شمار 29 فروری 2024ء سے 27 فروری 2025ء کے درمیان کے ہیں۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت میڈیا میں اشتہارات کی شکل میں اپنی ایک سالہ کارکردگی کو رپورٹ کیا، جبکہ صوبہ خیبر پختوا نخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور میشر مالیات مزمل اسلم نے خیبر پختونخوا حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پر ویڈیوز جاری کی ہیں، رپورٹ کی تیاری (10 مارچ تک)، حکومت سندھ نے ایک سالہ کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔
وفاقی حکومت!
پاکستان مسلم لیگ نواز (PMLN) کے میاں محمد شہباز شریف 3 مارچ 2024ء کو دوسری بار اتحادی جماعتوں کے تعاون سے وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے اور 4 مارچ 2024ء کو انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا، یوں انکی حکومت کے ابتدائی پہلا سال 3 مارچ 2025ء کو مکمل ہوا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی حکومت کے پہلے سال کا جائزہ لیا جائے تو معاشی سرگرمیوں اورگڈگورننس کے حوالے ہلکی سے بہتری اور سیاسی غیر یقینی صورتحال میں بھی کمی آئی ہے۔ ایک سال میں اسٹاک مارکیٹ 65325.69 پوائنٹس سے بڑھکر 113784.66 پوائنٹس تک پہنچی ، یعنی 48459.1 پوائنٹس (74 فیصد) کااضافہ ہوا اور ایک مرحلے پر اسٹاک مارکیٹ ایک لاکھ 18 ہزار پوائنٹس تک پہنچی۔ اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی تقریباً 23 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 10 فیصد کمی کی۔ رپورٹس کے مطابق ترسیلات زر میں بھی ماضی کے مقابلے میں نمایاں بہتری اور تجارتی خسارہ میں بھی کمی آئی ہے۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف) کے پروگرام پر عمل جاری رکھا اور انکی شرائط کو تسلیم کیا، سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، قطر، چین، ترکی، کویت اور دیگر ممالک کے دورے کئے اور دیگر معاشی سرگرمیاں بھی جار رکھیں۔ ان عوامل کو معیشت کی بہتری کے لئے مثبت قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح مہنگائی میں اضافے کی شرح بھی تقریباً 9 سال پہلے کی پوزیشن پر آگئی ہے، جو فروری 2024ء کے اختتام پر 34 فیصد تھی اور فروری 2025ء میں صرف 1.6 فیصد رہی، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اس کو اپنی حکومت کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں، تاہم معاشی بہتری، پیٹرولیم مصنوعات میں کمی اور روپے کی قدر میں استحکام کے باوجود اور اشیاء ضرورت کی قمیتوں کمی یا عوامی ریلیف کے حوالے سے زیادہ بہتری محسوس نہیں کی جارہی ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایک سال کے دوران گیس اور بجلی کے بلوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوام میں بوجھ بڑھ گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے لئے ایک سال کے دوران سب سے بڑا چیلنج امن و امان کی خرابی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب دکھائی دے رہی ہے۔
رپورٹ: عبدالجبارناصر | وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف حکومت کا پہلا سال اشیاء کی ضرورت کی قیمتیں | |||||||
کیفیت | بہتری یا بدتری فیصد | اضافہ تعداد | کمی تعداد | 27فروری2025 | 29فروری 2024ء | پیمانہ | نام اشیاء | نمبر شمار |
بہت بہتری | 74.18 | 48459.1 | ۔ | 113784.66 | 65325.56 | پوائنٹس | اسٹاک مارکیٹ | 1 |
استحکام | 0.16 | 0.44 | ۔ | 279.72 | 279.28 | روپیہ | ڈالر | 2 |
بہتری | 22.32 | 2906 | ۔ | 15926 | 13020 | ملین ڈالر | زرمبادلہ کے ذخائر | 3 |
بہت بہتری | 45.45 | ۔ | 10 | 12 | 22 | فیصد | شرح سود | 4 |
بہتری | 8.89 | ۔ | 24.94 | 255.63 | 280.57 | 1لیٹر | پیٹرول | 5 |
بہتری | 10.23 | ۔ | 33.86 | 258.64 | 288.14 | 1لیٹر | ڈیزل | 6 |
بدتری | 2.18 | ۔ | 6 | 269 | 275 | 1کلو | ایل پی جی | 7 |
بہتری | 8.14 | ۔ | 15.21 | 171.65 | 186.86 | 1لیٹر | تیل مٹی | 8 |
استحکام | 0.64 | 2 | ۔ | 315 | 313 | 1کلو | سی این جی(کراچی) | 9 |
زیادہ بدتری | 35.97 | 79500 | ۔ | 300500 | 221000 | تولہ | سونا24قراط | 10 |
بہتری | 7.04 | ۔ | 19 | 251 | 270 | 1کلو | سریا مغل | 11 |
بدتری | 10.44 | 130 | ۔ | 1375 | 1245 | بیگ | سیمنٹ لکی | 12 |
زیادہ بہتری | 37.14 | ۔ | 52 | 88 | 140 | 1کلو | آٹا | 13 |
بہتری | 8.44 | ۔ | 19 | 206 | 225 | 1کلو | چاول باسمتی | 14 |
بہتری | 7.59 | ۔ | 12 | 158 | 170 | 1کلو | چاول ایری 9 | 15 |
بہتری | 6.9 | ۔ | 8 | 108 | 116 | چھوٹی | ڈبل روٹی | 16 |
زیادہ بدتری | 23.98 | 205 | ۔ | 1060 | 855 | 1کلو | بڑا گوسشت | 17 |
زیادہ بدتری | 12.56 | 222 | ۔ | 1989 | 1767 | 1کلو | چھوٹا گوشت | 18 |
بدتری | 5.95 | 27 | ۔ | 481 | 454 | 1کلو | زندھ مرغی | 19 |
بدتری | 6.99 | 7 | ۔ | 199 | 186 | 1لیٹر | تازہ دودھ | 20 |
بدتری | 5.96 | 13 | ۔ | 231 | 218 | 1کلو | دہی | 21 |
بدتری | 13.49 | 34 | ۔ | 286 | 252 | درجن | انڈا | 22 |
بدتری | 18.27 | 91 | ۔ | 589 | 498 | 1کلو | تیل سرسوں | 23 |
بدتری | 8.32 | 45 | ۔ | 586 | 541 | 1کلو | تیل ڈالڈا | 24 |
بدتری | 11.3 | 59 | ۔ | 581 | 522 | 1کلو | گھی | 25 |
بدتری | 27.97 | 40 | ۔ | 183 | 143 | درجن | کیلے | 26 |
بہتری | 11.28 | ۔ | 38 | 299 | 337 | 1کلو | دال مسور | 27 |
زیادہ بدتری | 28.21 | 88 | ۔ | 400 | 312 | 1کلو | دال مونگ | 28 |
بہتری | 12.13 | ۔ | 66 | 478 | 544 | 1کلو | دال ماش | 29 |
بدتری | 25.67 | 67 | ۔ | 328 | 261 | 1کلو | دال چنا | 30 |
بدتری | 23.21 | 13 | ۔ | 69 | 56 | 1کلو | آلو | 31 |
زیادہ بہتری | 47.86 | ۔ | 56 | 61 | 117 | 1کلو | ٹماٹر | 32 |
زیادہ بہتری | 50 | ۔ | 90 | 89 | 178 | 1کلو | پیاز | 33 |
بدتری | 8.22 | 12 | ۔ | 158 | 146 | 1کلو | چینی | 34 |
بدتری | 4.35 | 3 | ۔ | 72 | 69 | پیکٹ | نمک پائوڈر | 35 |
بہت بہتری | 20 | ۔ | 80 | 320 | 400 | 200گرام | مرچ پائوڈر | 36 |
زیادہ بدتری | 17.22 | 103 | ۔ | 701 | 598 | 1کلو | لہسن | 37 |
بہتری | 12.14 | ۔ | 67 | 485 | 552 | 190گرام | پتی لپٹن | 38 |
بدتری | 6.81 | 39 | ۔ | 612 | 573 | 1میٹر | کپڑا (گل احمد ، الکرم) | 39 |
بدتری | 2.33 | 3 | ۔ | 132 | 129 | 250گرام | صوفی صابن | 40 |
بدتری | 2.97 | 11 | ۔ | 381 | 370 | 14واٹ | انرجی سیور بلب | 41 |
بہتری | 30 | ۔ | تقریباً30 فیصد | ۔ | ۔ | ایک | موبائل | 42 |
بہتری | 25 | ۔ | تقریباً25 فیصد | ۔ | ۔ | 1کلو | ڈرائی فروٹ | 43 |
نوٹ: رپورٹ میں ادارہ شماریات حکومت پاکستان کے 29 فروری 2024ء اور 27 فروری 2025ء کے ہفتہ واری اوسط اعدادوشمار کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ بعض اعداد شمار دیگر ذرائع سے حاصل یا قریب ترین تاریخوں سے لئے گئے ہیں ۔ بعض جگہ کمی اور بعض جگہ اضافہ مثبت ہے، اس لئے کیفیت میں پوزیشن واضح کی گئی ہے۔ ٹائمز آف کراچی نے رپورٹ کی تیاری میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ہے ، اعدادوشمار میں غلطی سہواً ہوگی ۔ |
معاشی سرگرمیاں!
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس نے "ٹائمز آف کراچی” سے گفتگو میں بتایا کہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی حکومت پر انتخابی نتائج کے حوالے سے اخلاقی سوال اپنی جگہ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ایک سال کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو معاشی سرگرمیوں واضح بہتری محسوس ہورہی ہے۔ معاشی اعدادوشمار بتاتے ہیں مہنگائی میں اضافے کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے، تاہم مہنگائی میں کمی کا حکومتی دعویٰ درست نہیں ہے۔ مہنگائی کا تعلق اشیاء ضرورت سے اور بیشتر اشیاء کی قیمتوں کا تعین اور کنٹرول صوبائی یاضعلی حکومت کا ہے، مگر بہتر گڈگورننس نہ ہونے کی وجہ سے عام آدمی کو معاشی بہتری کا ریلیف نہیں مل رہا ہے، یہ تشویش کی بات ہے۔ سینئر صحافی اور معاشی تجزیہ نگار راجہ کامران کا کہنا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی سرگرمیاں کافی مثبت ہیں، بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین ، کویت، قطراور دیگر ممالک سے سرمایہ کاری کے حوالے وعدے اور معاہدے کافی مثبت ہیں۔ عام آدمی کو فوری ریلیف کے لئے وفاقی حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے سخت اقدام کرنے کی ضرورت ہے، اس ضمن میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں جلد 7 سے 10روپے فی یونٹ کا ریلیف فراہم کیا جائے گا،اگر اس می کامیاب ہوئی تو عوامی سطح پر سراہاجائے گا۔ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو ایک کمزور اتحادی وفاقی حکومت کی کارکردگی حوصلہ افزاء ہے۔ مگر وفاقی وزارت اطلاعات مثبت اقدام کو بھی اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے۔
ملکی سیاسی استحکام!
عام انتخابات 2024ء کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام میں ٹھرائو ضرور آیا ہے، مگر مستقل سیاسی استحکام کے لئے کوئی دیر پاپیش رفت نظر نہیں آرہی ہے، جو وفاقی حکومت کے لئے ایک مشکل امتحان ہے، اس ضمن میں حکومت، اپوزیشن اور مقتدر قوتوں کو مل بیٹھکر سب کے لیے کوئی آبرومندانہ راستہ تلاش کرنا ہوگا، ورنہ حکومت کی سرگرمیاں اور کوشیش مصنوعی ثابت ہونگی اور اپوزیشن کو بھی نمایاں کامیابی نہیں مل سکے گی، ملک کے دوصوبوں میں امن و امان کی خراب صورتحال اور بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات نے حالات کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ سیاسی طور پر اس وقت بظاہر حکمران اتحاد بہتر پوزیشن میں دکھائی دے رہا ہے، مگر ضروری نہیں کہ حکمران اتحاد کی یہ پوزیشن آگے بھی برقرار رہے، سیاسی استحکام کے حوالے تمام قوتوں کو اپنی ” میں” کی قربانی دیتے ہوئے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا، اس حوالے سے حکمران اتحاد میں سے صدر پاکستان آصف علی زرداری، پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف، وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف جبکہ اپوزیشن میں سے سابق وزیر اعظم عمران خان، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور دیگر پر اہم زمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سینئر صحافی!
سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار مظہر عباس نے "ٹائمز کراچی” کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ مجموعی طور پر اس وقت سیاسی طور پر حکمران اتحاد بہتر پوزیشن پر ہے، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی حکومت کو بظاہر فوری کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آرہا ہے، کیونکہ 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات اور شدید تنازعات کے بعد اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے مختلف مواقع پر احتجاج کی کال دی ، مگر خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اور 26 نومبر 2024ء کے بعد اپوزیشن کافی پیچھے نظر آرہی، یہ اپوزیشن کی تقسیم اور کمزور حکمت عملی کی وجہ سے ہے۔ جب بھی اپوزیشن قیادت سنجیدہ اور منظم ہوکر آگے بڑھے گی، حکومتی مشکلات میں اضافہ ہوگا، یہ بھی کہ اتحادی حکومتوں میں حالات خراب ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ اس لئے حکمران اتحاد کو دیر سیاسی استحکام کے لئے عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار محمد منیرالدین نے "ٹائمز کراچی” کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی ایک سالہ کارکردگی بالخصوص معاشی سرگرمیاں امید افزاء ہیں تاہم ان معاشی سرگرمیوں کا فوری اور نچلی سطح تک عوام کو نہیں پہنچ رہا ہے، اس کے لئے حکومت کو اشتہارات کی بجائے عملی اقدام کرنے ہونگے۔ جہاں تک سیاسی استحکام کی بات ہے تو بظاہر حکمران اتحاد کی پوزیشن بہتر ہے ، مگر مجموعی طور پرماحول میں کشیدگی واضح دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان ، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان اور تحریک انصاف کے اتحادیوں کے حکمران اتحاد اور مقتدرقوتوں کے خلاف بظاہر جارحانہ موڈ کے باوجود حکموت کے لئے کوئی بڑا اور فوری چیلنج نظر نہیں آرہا ہے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی تنہا پرواز خواہش بھی اپوزیشن کے لئے اصل رکاوٹ ہے۔
پنجاب حکومت!
مختلف اداروں کے اعدادوشمار، مختلف تجزیہ نگاروں کے خیالات اور ظاہر صورتحال کو مند نظر رکھیں تو اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ایک سالہ کارکردگی نہ صرف حوصلہ افزاء بلکہ دیگر تمام وزرائے اعلیٰ کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ پنجاب میں مختلف شعبوں میں بہتر نظر آرہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف پاکستانی تاریخ میں پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں۔ انکا انتخاب پنجاب اسمبلی میں 26 فروری 2024ء کو ہوا اور اسی روز انہوں نے عہدے کا حلف اٹھایا۔ مریم نواز شریف کی حکومت کا پہلا سال 25 فروری 2025ء کو پورا ہوا۔ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے شدید دبائو کے باوجود مجموعی طور پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی گڈ گورننس، سیاسی، انتظامی تحریک، عوامی فلاحی کاموں، صحت، تعلیم اور ریلیف ایشوز کے حوالے کارکردگی کسی حد تک حوصلہ افزاء ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں سے پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے جون 2024ء کو اپنے 100 دن اور فروری 2025ء میں ایک سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کی اور ان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پنجاب میں مختلف شعبوں میں بہتری آئی ہے۔ مختلف ذرائع کے اعداد و شمار سے بھی اس کی تصدیق ہورہی ہے۔ تاہم عوامی سطح پر کارکردگی رپورٹ کو اخباری اشتہارات کی شکل میں جاری کرنے ناراضگی ضرور نظرآرہی ہے۔
سینئرصحافی!
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس اورسینئر صحافی محمد منیرالدین نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ایک سالہ کارکردگی حوالے سے "ٹائمزآف کراچی” کو بتایا کہ معاشی، سیاسی، انتظامی اور گڈگورننس کے حوالے کارکردگی کسی اطمنان بخش ہے۔ مظہر عباس کا کہناہے کہ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ مریم نواز شریف نے اب تک بہتر کاکردگی کا مظاہر کیا ہے ، جو نظر بھی آرہی ہے، مریم نواز شریف نے کئی سخت اقدام بھی کئے ہیں، بالخصوص تجاویزات کے خلاف انکا صوبہ بھر میں آپریشن بہت اہم فیصلہ ہے، تاہم 60 اخباری رنگین صفحات شکل میں کارکردگی رپورٹ جاری کرنا مناسب نہیں ہے، یقیناً اس پر قومی خزانے سے ایک خطیر رقم خرچ ہوئی گی۔ محمد منیر الدین کا کہنا ہےکہ حکومت پنجاب کے پاس کچھ دکھانے کو تھا تو انہوں نے پہلے 100دن اور اب ایک سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کی اور موقع ملا تو وہ آئندہ بھی رپورٹس جاری کریں گے، حقیقت یہی ہے کہ یہ لوگ کارکردگی پر یقین رکھتے ہیں، تاہم کارکردگی رپورٹ کے حوالے سے 60 صفحات کے اشتہارات والے عمل کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاسکتی ہے۔
سندھ حکومت!
مختلف اداروں کے اعداد وشمار، مختلف تجزیہ نگاروں کے خیالات اور ظاہری صورتحال کو مند نظر رکھیں تو وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ ماضی کی طرح بہت زیادہ متحرک نہیں دکھائی دئے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا انتخاب سندھ اسمبلی نے 26 فروری 2024ء کیا اور انہوں نے 27 فروری 2024ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ پاکستان کے موجودہ وزرائے اعلیٰ میں سید مرادعلی شاہ واحد وزیراعلیٰ ہیں ، جو گزشتہ 9 سال میں اسی عہدے پر تیسری بار منتخب ہوئے، انہیں اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کا تقریباً 23 سالہ تجربہ بھی ہے۔ امید یہی تھی کہ انکی کارکردگی سب سے نمایاں رہے گی، کیونکہ گزشتہ 5 سال میں مجموعی طور پر انکی پوزیشن سب سے بہتر رہی تھی اور یہ کہ تجربہ کار بھی ہیں، یہ بھی کہ وفاق، صوبہ،صوبے کے اضلاع، ٹائون، تعلقہ، یوسی اور وارڈ سطح پر بیشتر عوامی نمائندوں کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے ۔ باقی تمام وزرائے اعلیٰ کے پاس یہ سہولت موجود نہیں ہے اور یہ کہ یہ پہلی بار منتخب ہوئے ہیں، بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف پہلی بار کسی ایوان کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ حکومت سندھ کی مجموعی طوپر ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو مبصرین، ماہرین اور عوام تسلی بخش نہیں نہیں سمجھتے ہیں، دیہی سندھ کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں اور شہروں میں اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ اسی طرح صوبے میں بلدیاتی اداروں کے باوجود پانی ، بجلی ، گیس ، صفائی اور امن و امان کی سنگین شکایات سامنے آرہی ہیں۔ مجموعی طور پرسندھ میں ایشاء ضرورت کی قیمتوں کے حوالے سے صورتحال کافی سنگین ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ دبائومیں!
ایسا محسوس ہوتاکہ اسمبلی میں دو تہائی سے زائد اکثریت سے منتخب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اس بار کافی کمزور اور دبائو میں ہیں ، شاید اس کی بڑی وجہ انکی پارٹی کے اندر مبینہ رسہ کشی اور گروپ بندی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ ظاہری حالات اور بازگشت سے یہ محسوس ہوتا ہےکہ اس بار سندھ میں پیپلزپارٹی کے منتخب نمائندے گروپ بندی کا شکار یا ایک دوسرے سے خفا خفا سے لگتے ہیں۔ صوبے میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ گروپ بندی مرکزی قیادت سے نچلی سطح تک ہے۔ اگر یہ تاثر غلط ہے تو اس کا توڑ پیپلزپارٹی کو صوبے میں بہتر گورننس کے ذریعے غلط ثابت کرنا چاہئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ترجمانوں کی فہرست بھی کافی طویل ہے ، جس پر عوام حیرت زدہ ہیں۔
سینئر صحافی!
سینئر صحافی مظہر عباس نے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے بروقت ایک سالہ کارکردگی جاری نہ کرنا حیرت ہے اور انکا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اپنی رپورٹ ہیش کرنی چاہئے۔ مظہر عباس کے مطابق صحت کے شعبے میں سندھ کی کارکردگی کافی بہتر محسوس ہورہی ہے۔سینئر صحافی محمد منیرالدین کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ مجموعی طور پرسندھ میں پیپلزپارٹی کے اندر گروپ بندی کی باتیں زبان زد عام ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت پہلے سال میں توقع کے مطابق کاکردگی کامظاہرہ نہیں کرسکی ، جس کی امید صوبے کے تجربہ کار اور متحرک وزیراعلیٰ سے کی جاتی تھی۔ پنجاب حکومت کی طرح سندھ حکومت کو بھی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کرنی چاہئے تھی۔
خیبرپختونتخوا!
پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا انتخابات خیبر پختونخوا اسمبلی نے یکم مارچ 2024ء کیا اور 2 مارچ کو انہوں نے عہدے کا حلف اٹھایا۔ مختلف اداروں کے اعداد وشمار، مختلف تجزیہ نگاروں کے خیالات اور ظاہری صورتحال کو مند نظر رکھیں تو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا ایک تجربہ کار پارلمنٹیرینز ہیں۔ امکان یہی تھاکہ اپنے دعووں اور اعلانات کے مطابق انکی کارکردگی نمایاں رہے گی، کیونکہ انکو اپنی بہتر کارکردگی سے ہی اپنی عوامی حمایت کو مزید بہتر کرنا اور دیگر سیاسی مخالفین اورقوتوں کو جواب دینا ہے۔ یہ بھی کہ گزشتہ 12 سال سے صوبے میں تحریک انصاف کی ہی حکومت ہے اور انتظامیہ میں ایک مضبوط حامی گروپ موجود ہے۔ ایک سالہ کارکردگی کے حوالے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور مشیر خزانہ مزمل اسلم نے سوشل میڈیا میں مختلف ویڈیو کلیپ جاری کئے ہیں، جن کا جائزہ لیں تو کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے، صوبے کے ایک بڑے حصے میں خراب امن و امان کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا ہے، بلکہ سینئر سیاستدان مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ متعدد علاقوں میں حکومتی رٹ تقریباً ختم ہوچکی ہے، دہشت گردوں کے حملے اور ٹارگٹ کلنگ تقریباً معمول بن چکی ہے۔ اسی طرح صوبے میں بلدیاتی اداروں کے باوجود پانی ، بجلی ، گیس ، صفائی اور امن و امان کی سنگین شکایات سامنے آرہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی توجہ گڈ گورننس کی بجائے سیاسی مخالفین کو للکارنے پر ہے، یہ بھی کہ وزیراعلیٰ سندھ کی طرح وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پارٹی قیادت بالخصوص پارٹی کے قائد عمران خان کے شدید دبائومیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ مفاہمانہ حکومت کی کوشش کے باوجود وہ وفاقی حکومت اور مقتدر قوتوں سے مزاحمت کا تاثر دے رہے ہیں۔
سینئرصحافی!
سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے گڈگورننس کے ساتھ حکومت کرنے کے بجائے صرف پارٹی احتجاج پر ایک سال ضائع کردیا، احتجاج ہمیشہ پارٹی کرتی ہے، وزیراعلیٰ حکومتی کارکردگی کی بہتری کے ذریعے حمایت کرتا ہے، مگر خیبر پختونخوا میں ایک سال صورتحال مختلف نظر آئی۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی حماد حسن کا اپنے وی لاگ میں دعویٰ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی مایوس کن اور سب سے بری رہی ہے۔سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ضیاء الرحمان نے "ٹائمز آف کراچی” کو بتایا کہ وزیراعلٰی نے اعلانات تو بہت کیے مگر سوائے صحت کارڈ کی بحالی کے کوئی بھی بڑا منصوبہ شروع نہ کیا جا سکا۔ صحت کارڈ کا حصول بھی مزید شرائط کی وجہ سے مشکل کر دیا گیا ہے۔ کاغذوں کی حد تک تو حکومت کی کارکردگی اچھی ہے، مگر عملی طور پر کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ امن و امان کی صورتحال تقریباً تباہ ہوگئی ہے، پہلے سے زیادہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ضیاء الرحمان کے مطابق سندھ کی طرح خیبر پختونخوا کے وزراء اور تحریک انصاف کی قیادت میں واضح گروپ بندی اور تقسیم نظر آرہی ہے، اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت میں تحریک انصاف پنجاب کے رہنماء بھی مداخلت کی کوشش کر رہے ہیں۔ خیبرپخونخوا حکومت کے وزراء اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے اقدام پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں اور انکی ساری توجہ مرکز اور پنجاب سے مزاحمت پر ہے۔
بلوچستان حکومت!
پاکستان پیپلزپارٹی اور اتحادیوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا انتخابات بلوچستان اسمبلی نے 2 مارچ 2024ء کو کیا اور اسی روز انہوں نے عہدے کا حلف اٹھایا۔ تاہم کابینہ کی تشکیل میں انکو کئی ہفتے لگے۔مختلف اداروں کے اعداد وشمار، مختلف تجزیہ نگاروں کے خیالات اور ظاہری صورتحال کو مند نظر رکھیں تو وزیراعلیٰ بلوچستان کی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی زیر بحث ہی نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ایک تجربہ کار پارلمنٹیرینز ہیں۔ امکان یہی تھاکہ انکا دور بہتر رہے گا، کیونکہ انکو اپنی بہتر کارکردگی سے ہی یہ ثابت کرنا ہے کہ صوبے میں پیپلزپارٹی کا انتخاب بہتر فیصلہ ہے، مگر حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں، اب تو صوبائی وزراء بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ مجموعی طوپر ایک سالہ حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیں تو غیر تسلی بخش ہے، بالخصوص امن و امن کے حوالے سے تو حالات انتہائی مخدوش ہیں، صوبے کے ایک بڑے حصے میں خراب امن و امان کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ اسی طرح صوبے میں بلدیاتی اداروں کے باوجود پانی ، بجلی ، گیس ، صفائی اور امن و امان کی سنگین شکایات سامنے آرہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے گڈ گورننس کا معاملہ اداروں پر چھوڑا ہوا ہے۔
سینئر صحافی!
سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ضیاء الرحمان نے "ٹائمز آف کراچی” کو بتایا کہ بلوچستان حکومت کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے، اس لئے کہ عام تاثر یہی ہے کہ بلوچستان میں اصل حکومت مقتدر قوتوں کی ہی رہی ہے اور شاید اس کا ادراک یہاں سے منتخب نمائندوں کو بھی ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ پارٹیاں بدل بدل کر ہر بار وہی چہرے ایوانوں میں نظر آتے ہیں اور یہ کہ گورننس اور دیگر ایشوز پر سیاسی حکومتوں کا کردار نمائشی سا لگتا ہے۔ اب تو اصل معاملہ صوبے میں امن و امان ہے۔ عملاً تقریباً پورا صوبہ نوگو ایریا بن چکا ہے۔