پاکستان کے تمام ایوانوں میں سب سے زیادہ اور اہم بڑی جماعتوں کی بھرپور نمائندگی کے باوجود کراچی شہر عملاً لاوارث دکھائی دے رہاہے، سال 2024ء میں اسٹیک ہولڈرز کی مایوس کن کارکردگی نے سال 2025ء کو بھی سوالیہ نشان بنادیاہے۔ کراچی کی بیشتر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ یا جزوی متاثر ، انفرااسٹیکچروشعبہ تعلیم کی تباہی ، پانی ،بجلی اورگیس کے شدید بحران اور صحت و صفائی کی سہولیات کے فقدان نے عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ کردیا ہے ۔
کراچی سے سینیٹ آف پاکستان ، قومی اسمبلی ، سندھ اسمبلی ، کراچی میٹرو پولٹن کارپورشن (کے ایم سی)، ٹائون میونسپل کارپوریشنز (ٹی ایم سیز)،کنٹونمٹس ، یونین کمیٹیوں (یوسیز)اوروارڈز کونسلرز کی مجموعی تعداد3203 میں سے 3122 عوامی نمائندے مختلف جماعتوں کے پلیٹ فارم سے ایوانوں میں موجود ہ ہیں، صرف بلدیاتی وارڈکونسلرز کی 81 خالی ہیں (مفصل اعدادوشمار چارٹ میں )۔

پیپلزپارٹی
کراچی میں سب سے زیادہ نمائندگی پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس ہے ، جس کے مختلف ایوانوں میں موجود نمائندوں کی تعداد 1234 ہے اور پیپلزپارٹی وفاقی حکومت میں اہم اتحادی ، صوبے، کراچی میٹرو پولٹن کارپورشن (کے ایم سی)، 25 میں سے 13 ٹائونز، 6 میں سے 3 کنٹونمنٹس، 246 میں سے 106 یونین کمیٹیوں میں اقتدار میں ہے، جبکہ 815 بلدیاتی کونسلرز کی نمائندگی بھی ہے ، اس کے باوجود سال 2024ء میں کراچی کے عوام کو مطمئن کرنے کامیاب نہ ہوسکی ۔ عوام کا عمومی تاثر یہ ہے کہ عوامی نمائندگی کے حوالے سے پیپلزپارٹی کراچی میں 2024ء جس پوزیشن پر کھڑی تھی، ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی، سینیٹ، قومی و سندھ اسمبلی اور بلدیاتی اداروں میں 1234 منتخب نمائندوں کی بھرپور قوت کے باوجو د پیپلزپارٹی کراچی کے عوام کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
عوامی تاثر ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس کراچی میں نمایاں کارکردگی کے طور پر سال 2024ء میں دکھانے کے لئے شاہراہ شہید ذوالفقار علی بھٹو (ملیر ایکسپریس وے) اور صحت کے شعبے میں کچھ بہتری کے سوا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اس شاہراہ کے ایک حصے کا افتتاح 11 جنوری 2025ء کو پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ہمراہ کیا ہے ۔
تلخ حقیقت یہی ہے کہ کراچی کی بیشتر ٹوٹ پھوٹ کا شکار یا جزوی متاثر ہیں ، انفرااسٹیکچر تباہ ہے ،شعبہ تعلیم کی تباہی کی کہانیاں زبان زد عام ہیں ، پانی ،بجلی اورگیس کا شدید بحران روز بروز بدتر ہوتا جارہا ہے ، صفائی کا نظام بھی تسلی بخش نہیں ہے اور علاقائی سطح پر صحت کی سہولیات سے بھی عوام مایوس ہیں۔ اسٹریٹ کرائم نے جینا دو بھر کردیا ہے۔
سید وقار مہدی
پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سید وقار مہدی نے ” ٹائمز آف کراچی” کو بتایا کہ کراچی کے عوام نے پیپلزپارٹی کو اپنا مینڈیٹ دیا اور پیپلزپارٹی کراچی کی ترقی کے لئے کوشاں ہے۔ صوبائی حکومت اور کے ایم سی کے تحت شہر میں سڑکوں کی تعمیر ومرمت اور فلائی اورز و انڈر بائےپاس کے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے۔ شہر میں بہترین معیاری اور متبادل شاہراہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے حصے کا افتتاح ہوچکا ہے، دسمبر 2025ء تک یہ شاہراہ مکمل ہوجائے گی ۔ شہر میں صفائی کے نظام کے بہتر بنایا گیا ہے ، اس لئے اب بہت کم شکایات ملتی ہیں، سولڈ ویسٹ کے نظام کو مزید بہتر کر رہے ہیں۔ صحت کی سہولیات کے حوالے سے ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ کراچی باقی پورے ملک سے بہت آگے ہیں، سرکاری ہسپتال اور حکومتی تعاون سے نجی اسپتال بہترین کام کر رہے ہیں، نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پڑوسی ممالک سے بھی لوگ علاج کے لئے کراچی آتے ہیں ۔ ٹرانسپورٹ نظام کی بہتری کے لئے پیپلز بس سروس کی 300 بسیں کامیابی سے چل رہی ہیں اور اب الیکٹرک بسوں کے روٹ میں بھی اضافہ کر رہے ہیں ، جس کے بعد ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کافی بہتری کا امکان ہے۔ صاف پانی کے لئے "کے فور منصوبہ ” جلد مکمل کیا جائے گا اور پانی کی نئی لائنوں کی تنصیب اور پرانی لائنوں کی مرمت بھی جاری ہے۔ امن و امان کے لئے پولیس کے نظام کو مضبوط، مربوط اور بہتر بنارہے ہیں اور سیف سٹی پروجیکٹ پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ہر یونین کمیٹی کو ماہانہ 12 لاکھ روپے دئے جارہے ہیں، جن میں سے 4 لاکھ روپے تنخواہوں اور 8 لاکھ روپے ترقیاتی کاموں کے لئے مختص ہیں، یہ فنڈز بلا امتیاز فراہم کئے جارہے ہیں۔ مزید یہ کہ یونین کمیٹی کے چیئرمینوں کو سالانہ 2 کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں ۔ شعبہ تعلیم کی بہتری کے لئے حکومت سندھ اور کے ایم سی کام کر رہی ہے، تعلیمی اداروں میں بچوں کو صاف ماحول ، پانی اور بجلی کی فراہمی کے لئے اقدام کئے جارہے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
کراچی سے سینیٹ ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں نمائندگی کے حوالے سے دوسرے نمبر پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ہے، جس کے مختلف منتخب اداروں میں 53 نمائندے ہیں، جن میں سے سینیٹ میں 3، قومی اسمبلی میں 19 اور سندھ اسمبلی میں 31 ممبران ہیں، بلدیاتی انتخابات 2023ء کے بائیکاٹ کی وجہ سے کراچی میٹرو پولٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے بلدیاتی اداروں میں کوئی نمائندگی نہیں ہے ، تاہم کنٹونمنٹس کے بلدیاتی اداروں میں سے ایک کنٹونمنٹ کی سربراہی اور مجموعی طور پر 8 کونسلرز ہیں (تفصیل چارٹ میں)۔ عام طور پر ایم کیوایم پاکستان کا شمار دوسرے نمبر کے اسٹیک ہولڈر کے طور پر ہوتا ہے۔
علی خورشیدی
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنماء اور سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے ” ٹائمز آف کراچی” کو بتایاکہ کراچی شہر جن مسائل کا شکار ہے ، ان میں بیشتر کا تعلق صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں سے ہے ۔عام انتخابات 2024ء میں کراچی کے عوام نے ایم کیوایم پاکستان پر بھرپور اعتماد کیا ہے اور ہمیں کراچی کے مسائل و محرومیوں کا درست ادراک ہے ، اس لئے شہری سندھ بالخصوص کراچی کے مسائل پر پاکستان پیپلزپارٹی کی عدم توجہی کی وجہ سے ہمیں کراچی کے مسائل کے حوالے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف سے بات کرنی پڑی اور کراچی کے لئے ہم 10 ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس پیکیج کے مطابق ہر رکن قومی اسمبلی کے لئے رقم مختص کی ہے، جس کے تحت علاقائی سڑکوں اور سیوریج نظام کی مرمت ہوگی، اس پیکیج کے تحت کام شروع ہوچکا ہے ، اسی پیکیج کے تحت 5 ارب روپے حیدر آباد کے لئے بھی منظور ہوئے ہیں ۔ کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک اور عوامی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے نادرن بائے پاس اور لیاری ایکسپریس کی بہتری اور کشادگی کے لئے اقدام کئے ہیں ، اس پر عمل سے کراچی کے ٹریفک کے مسائل کا کسی حد تک حل ہونگے۔ ایم کیوایم پاکستان کے چیئرمین اور وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کوششوں سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے تحت تمام اہم انسٹیٹیوٹس کے کیمپس کراچی میں قائم کرنے کام شروع ہوچکا ہے، مجموعی طور پر 16 اہم انسٹیٹیوٹس اور اہم یونیورسٹیاں کراچی میں اپنے کیمپس قائم کریں گی اور بعض نے کام بھی شروع کردیا ہے اور یہ کام پہلی بار ہو رہاہے ۔ کراچی کے ہزاروں طلبہ و طالبات مستفید ہونگے۔ حیدر آباد یونیورسٹی میں بھی داخلے شروع ہوچکے ہیں ۔ کراچی میں پانی کی قلت کے خاتمے کے لئے حب کینال کے ایک منصوبہ کئی برسوں سے بجٹ کا حصہ بن رہا تھا اور پہلی بار ایم کیوایم پاکستان کے ارکان کی کوشش سے عملی کام ہورہا ہے ۔
سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علی خورشیدی کے مطابق کراچی میں تعلیم کا نظام تباہ ہوچکا ہے ، اب بہتری کے لئے ہم نے طے کیا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کا ہر رکن سندھ اسمبلی پہلے مرحلے میں 3 غیر فعال سرکاری اسکولوں کو گود لے گا اور ہم نے اس پر عمل بھی شروع کردیا ہے، اس کا مقصد کراچی کے تعلیمی اداروں کے بہتر معیار کے ساتھ بحال کرنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بلدیاتی مسائل کا حل بہتر قانون سازی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ہم بلدیاتی اداروں کے آئینی تحفظ اور بہتر بلدیاتی نظام کے لئے کوشاں ہیں۔ گیس اور بجلی کے مسائل پر وفاقی اور صوبائی حکومت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ کے الیکٹرک کی انتظامیہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہے، سندھ اسمبلی کی تین پارلیمانی کمیٹیاں بنی ہیں ، مگر کے الیکٹرک کی انتظامیہ جواب دینے کو تیار ہی نہیں ۔ قائد حزب اختلاف علی خورشیدی کے مطابق پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی میں ہماری جماعت سندھ کے شہری علاقوں کی بھرپور نمائندگی کر رہی ہے، ہمارے مثبت اقدام کے ثمرات جلد عوام کو ملنا شروع ہونگے ، تاہم پیپلزپارٹی کو یہ جواب دینا ہے کہ 16 سال میں انہوں نے کراچی کے لئے کیا ہے ، اب تو تمام حکومتیں اور ادارے ان کے پاس ہی ہیں۔
جماعت اسلامی
کراچی سے بلدیاتی اداروں میں نمائندگی کے حوالے سے دوسرے نمبر پر جماعت اسلامی پاکستان ہے ، جس کے مختلف ایوانوں میں موجود نمائندوں کی تعداد 1136 ہے ۔سندھ اسمبلی میں 2، کراچی میٹرو پولٹن کارپورشن (کے ایم سی) میں کونسلرز 128، 9ٹائونز میں اقتدار ، ٹائون نمائندے 159 ہیں ، 6 کنٹونمنٹ کونسلرز ، 85 یونین کمیٹیوں میں اقتدار ، جبکہ 1006 بلدیاتی کونسلرز کی نمائندگی بھی ہیں(تفصیل چارٹ میں) ۔
منعم ظفر خان
جماعت اسلامی کراچی کے ا میر منعم ظفر خان نے ” ٹائمز آف کراچی” کو بتایا کہ کراچی میں پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کے بلدیاتی منڈیٹ پر ڈاکہ مارا ، اس کے باوجود جماعت اسلامی نے اپنے 9 ٹاؤنز میں اختیارات ملنے کے بعد 14 ماہ کے دوران شہر میں 115 پارکس بحال اور تقریباً 45 ہزار اسٹریٹ لائٹس روشن کئے ۔ 50 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا اور 15 ہزار مین ہول میں کور نصب کئے ۔ 32 اسکولز کی تزئین و آرائش/اپ گریڈیشن کی ۔4 پارکوں میں اوپن ائیر جم بناکر جماعت اسلامی نے کراچی میں نیا تصور پیش کیا ہے۔5 اسپورٹس کمپلیکس بنائے گئے اور کروڑوں کی ناکارہ مشینری کوبحال کیا۔ مختلف ٹائونز میں مالی بحران کی وجہ ریٹائرڈ ٹاؤن ملازمین کو واجبات کی ادائیگی میں شدید مشکلات تھیں اور ہمارے منتخب نمائندوں نے اس معاملے کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ سندھ اسمبلی میں ہمارے واحد رکن محمد فاروق پورے شہر کی بھرپور نمائندگی کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اقتدار پر قبضہ تو کیا، مگر اہل کراچی کے لئے کچھ نہیں کیا اور عوام مایوس ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شہر لاوارث ہے۔
پاکستان تحریک انصاف
کراچی سے سندھ اسمبلی اور بلدیاتی اداروں میں نمائندگی کے حوالے سے تیسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف ہے ، جس کے مختلف ایوانوں میں موجود نمائندوں کی تعداد 516 ہے ۔سندھ اسمبلی میں 7، کراچی میٹرو پولٹن کارپورشن (کے ایم سی) میں 70 کونسلرز، 3 ٹائونز میں اقتدار ، 73ٹائون نمائندے ، ایک کنٹونمنٹ میں صدارت اور 15 کنٹونمنٹ کونسلرز ، 43 یونین کمیٹیوں میں اقتدار ، جبکہ 358 بلدیاتی کونسلرز کی نمائندگی بھی ہے ۔
محمد شبیر قریشی
سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر محمد شبیر قریشی نے "ٹائمز آف کراچی” کو بتایا کہ اگر چہ کراچی میں ہمارے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ، اس کے باوجود ہماری جماعت سندھ اسمبلی میں کراچی کے عوام کی بھرپور نمائندگی کررہی ہے ۔ اس وقت وفاقی اور سندھ حکومت کی تمام تر توجہ تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کو دبانے پر مرکوز کئے ہوئے ہیں، انکو عوامی مسائل کی پروا نہیں ہے۔ 190 ملین پائونڈ کیس میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان اور انکی اہلیہ کو دی جانے والی سزا بھی اسی مہم کا حصہ ہے۔ سندھ حکومت بھی اپنا بجٹ بھی ہماری جدوجہد کو دبانے پر خرچ کر رہی ہے۔ ہم ان حکمرانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ انتقامی سیاست کے بجائے لوگوں کے مسائل حل پر توجہ دو ۔ شہر کراچی اس وقت مفلوج ہوچکا ہے ، گیس ، بجلی ، اسٹریٹ کرائم ، مہنگائی ، صفائی کے فقدان اور سیوریج نظام کی تباہی نے شہر کراچی کو کھنڈر بنایادیا ہے ۔ مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب صدیقی آج تک ہنی مون منارہے ہیں اور انکو ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ مئیر کراچی ہیں ۔ ہم اپنے طور پر ہر سطح پر بطور اسٹیک ہولڈر اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔ کراچی کے شہریوں پر حکومت ظالمانہ ٹیکس لگا رہی تھی ہم نے احتجاج کیا اور جس کی وجہ سے وزیراعلیٰ سندھ نے اس میں کمی کردی ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا منڈیٹ تو فارم 47 کے تحت ہم سے چھین لیا گیا ہے ، اس کے باوجود ہم اپنا حق ادا کر رہے ہیں ۔
خلاصہ
تلخ حقیقت یہی ہے کہ منی پاکستان کراچی، پاکستان کا معاشی حب ہونے کے باوجود بدترین انتظامی بحران کا شکار ہے۔ شہر کی ترقی کے دعوے حکومتی اور اسٹیک ہولڈرز تک محدود ہیں، جبکہ عوام بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے مایوس ہیں۔ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کی بڑی نمائندگی کے باوجود عوام مطمئن نہیں ہیں۔ کراچی کی تعمیر و ترقی اور بہتر منصوبہ بندی تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کوششوں کی متقاضی ہے، تاہم سب سے زیادہ ذمہ داری حکمراں جماعت پیپلزپارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ہر اسٹیک ہولڈر سالانہ اپنی کارکردگی رپورٹ جاری کرے۔اس ضمن میں جماعت اسلامی کا طریقہ بہترین اور مثالی ہے۔