سندھ اسمبلی نے صوبے میں سندھ زرعی آمدن ٹیکس بل 2025ء کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ایوان کی جانب سے نئے ٹیکس سلیب کے قانون کو بھی منظور کرلیا گیا ہے، زرعی پیداوار سے حاصل ہونےوالی آمدن پر 45فیصد تک ٹیکس عائد ہوگا ,لسٹیڈ کمپنی بنانے پرزرعی شعبہ سے20 سے 28 فیصد وصول کیا جائے گا ، زرعی آمدن پندرہ کروڑ سے زائد ہوئی تو سپر ٹیکس کا اطلاق بھی ہوگا زرعی ٹیکس سندھ ریونیو بورڈ جمع کرے گا، جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہاہے کہ وفاقی حکومت نے ہمیں بند گلی میں لاکرکھڑا کردیا ہے۔ ایف بی آر کرپشن کا گڑھ ہے ، قانون مجبوری میں لایا جارہا ہے اگر ایسا نہ کرتےتو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ متاثر ہوتا ، پیپلز پارٹی نے ملک کی خاطر یہ فیصلہ قبول کیا ہے۔
سندھ اسمبلی کا اجلاس پیرکو ڈپٹی اسپیکر نوید انتھونی کی زیر صدارت ایک گھنٹہ 33 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ایوان کی کارروائی کے دوران وزیر پارلیمانی امور ضیاءالحسن لنجار نے ضمنی ایجنڈے کے تحت سندھ زرعی آمدن ٹیکس بل ایوان میں پیش کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بل کی اہم نکات اور اسکے مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان جو معاہدہ ہے اس کی بنیاد پر یہ ایکٹ بنایا گیا ہمیں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کچھ معاہدے بھی پورا کرناہیں۔ پنجاب اسمبلی نے پہلے ہی زرعی آمدن ٹیکس بل پاس کردیاہے ۔سندھ زرعی آمدن ٹیکس بل۔کو لانے سے معاشی مسائل مین بہتری آئےگی۔
قائد ایوان اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمیں بند گلی میں لاکرکھڑا کردیا ہے۔ ایف بی آر کرپشن کا گڑھ ہے ۔قانون مجبوری میں لایا جارہا ہے اگر ایسا نہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ متاثر ہوتا ، پیپلز پارٹی نے ملک کی خاطر یہ فیصلہ قبول کیا ہے۔ ایف بی آر کئی جگہوں پر ناکام رہا جبکہ ایس آر بی نے ہمیشہ اپنا ہدف پورا کیا ہے۔ زرعی ٹیکس تیس سال سے لگا ہوا ہے وفاق نے کہا کہ یہ ٹیکس دیں اور ایف بی آر جمع کرے گا۔ وفاقی ٹیکس میں صوبوں کا بھی حصہ ہوتا ہے ،ایف بی آر نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے کہا کہ زرعی شعبہ ٹیکس نہیں دیتا پھر ہمارے ہاں سے بھی یہ بات ہوتی رہی اور آئی ایم ایف سے کہا کہ زراعت پر ٹیکس لگا دو۔ زراعت پر ٹکیس سے اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے ایوان کو بتایا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے وقت ہمیں دو تین دن کا وقت دیا گیا ہم نے اپنی ٹیم بھیجی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارا کاشتکار اگر فصل نہیں لگائے گا تو ہم کھائیں گے کہاں سے ؟ میرے خاندان کی ہزاروں ایکٹر زمین ہے ڈیم بننے کے بعد وہ آباد نہیں ہوتی اب اگر اس اراضی کو فروخت کروں تو کوئی خریدے گا بھی نہیں ،پانی کی یہ اہمیت ہے۔ آج سے کچھ روز قبل وفاقی حکومت کی جانب سے بتایا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نہیں آرہی ،وہ نہیں آئی تو معاہدہ ختم ہوجائے اور ملک پر اثر پڑے گا ،ہم نہیں چاہتے تھے کہ معاہدے کے ختم ہونے کی ہم وجہ بنیں ،خیبر پختونخوا اور پنجاب بل پاس کرچکے ہیں۔ بلوچستان بھی کابینہ سے منظور کرچکا ۔پہلے کسی اور کو منظوری دے دی پھر ہمارے اوپر بندوق لے کر کھڑے ہوگئے کہ منظور کرو۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ صوبوں کو ایسے ٹریٹ نا کریں ۔میں اور وزراء اور دیگر لوگ اپنا ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں، جو لوگ اور راستوں سے آتے ہیں ہم ان سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ ٹیکسز ہونے چاہیں مگر ٹیکسز میں بہتری لانی چاہیے ۔ہم نے آبادی اور اراضی کی زمین میں فرق رکھا ہے۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ٹیکس لگا کر کوئی حکومت خوش نہیں ہوتی لیکن حکومت چلانے کے لیے ٹیکس لگانا پڑتا ہے ۔تنخواہ دار سب سے زیادہ تنخواہ دیتا ہے۔ ہمارا ملک زرعی ملک ہے ہمیں خدشات یہ ہیں کہ ہمارے زمیندار کو بہترآمدن نہیں ملی تو وہ کوئی اور کاروبار کرینگے ،میری آمدن کا بڑا حصہ زراعت سے آتا ہے میری مجبوری ہے زراعت کرنا۔ ہم نے عجلت میں یہ بل پاس نہیں کیا کئی ماہ سے اس پر بات ہورہی تھی لیکن آئی ایم ایف کی ٹیم نہیں آرہی تھی اس لیے ابھی یہ بل لائے۔ ہم اس بل میں ترامیم لا سکتے ہیں سب اپنی ترامیم جمع کروائیں۔ آئی ایم ایف کو غلط راستہ دکھایا گیا۔
قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے کہاکہ حکومت اپوزیشم کو اعتماد میں نہیں لیتی ہے اور اجلت میں قانون سازی کرتی ہے، دو روز قبل بھی اسی طرح قانون سازی کی گئی، اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی کر رہے ہیں تو پھر جمہوریت کے دعوے نہ کریں۔ ایس آربی پہلے ہی اپنا ہدف حاصل کرسکا ہے، اب پھر اسکو یہ زمہ داری دی گئی ہے۔ جولائی 2024ء کو صدرآصف علی زرداری نے واضح طور پر بتایا تھاکہ ہم آئی ایم ایف کی ہدایت پر یہ کام کرنے جارہے ہیں تو پھر لاعلمی کا اظہار کیوں؟ سندھ حکومت کو اگر واقعی تحفظات تھے تو وزیراعظم کو خط کیوں نہیں لکھا؟ یہاں کچھ کرنا اور عمل کچھ کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہم بل کی حمایت کر رہے ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا پانچ فیصد حصہ ٹیکس دیتا ہے، معاشرے کے کئی طبقات ابھی بھی ٹیکس نہیں دے رہے۔ ہم اصولی طور پر اس ٹیکس کی شرح بڑھانے کے خلاف ہیں۔ہماری خواہش ہے کہ زراعت پر ٹیکس کا بوجھ کم سے کم ہو،زرعی ٹیکس صوبائی معاملہ تھا وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ پہلے صوبوں سے مشاورت کرتی ،پیپلزپارٹی پنجاب خیبرپختونخواہ بلوچستان کی بھی بات کررہی ہے تاہم جب پاکستان کے مفاد کی بات ہو تو پیپلز پارٹی پیچھے نہیں ہٹتی۔ آئی ایم ایف شرائط پر ہی پیٹرول ڈیزل کی قیمت بھی بڑھائی جاتی ہے۔ اگر پاکستان کا قرض رک گیا تو ہماری معیشت بھی رک جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر ہم اس ٹیکس کے حق میں نہیں مگر ملک کے لئے مجبوری میں ہاں کرنا پڑ رہی ہے۔ سندھ حکومت زرعی ٹیکس سے ہونےوالی آمدن کسانوں پر خرچ کرےگی، زرعی سیکٹرمیں میگا اسکیمز ہمیشہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت لائی ہے ۔بیج سبسڈی بھی ہم دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے فیاض بٹ نے کہا کہ اس ٹیکس کا نفاذ وقت اور حالات کے تناظر میں ضروری ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے کہا کہ زرعی آمدن ٹیکس کی حمایت کرتے ہیں ۔انہوں نے اس بات کی ضرورت پر بھی زور دیا کہ زرعی آمدن ٹیکس کی شرح کو بہترکیاجاناچاہیے۔ ایم کیو ایم کے صابر قائم خانی نے کہا کہ ہم منصفانہ ٹیکس نظام کی حمایت کرتے ہیں ۔ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی وجہ سے سندھ حکومت یہ ٹیکس لگانے پر مجبور ہوئی۔اس فیصلے سے زرعی پیداوار کم ہونے کا اندیشہ ہے لیکن ہمارے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔زرعی آمدن پر ٹیکس مشکل فیصلہ ہے لیکن اس کو کرناہے۔ ایم کیو ایم کے طحہ احمدخان نے کہا کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانےکی ضرورت ہے ۔ایم کیوایم چالیس سال سےزرعی آمدن پر ٹیکس کا مطالبہ کرتی رہی یہ ہمارے وژن کی کامیابی ہے ۔وزیر زراعت سردار محمد بخش خان مہر نے کہا کہ زرعی ٹیکس صوبائی معاملہ ہے ۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرناتھاتوصوبوں سے مشاورت تو کرتے ،ہماری حکومت اور قیادت نے سب سے زیادہ مخالفت کی تھی کیونکہ زرعی شعبہ پہلے ہی مسائل سے دوچار ہے ہم زراعت کے شعبے کو سبسڈی دیکر سپورٹ کریں گے۔
بحث کے بعد ایوان میں سندھ ایگریکلچرل انکم ٹیکس ایکٹ بل2025 ایوان میں پیش کیا گیا جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ قبل ازیں سندھ اسمبلی نے شہید بے نظیر بھٹو انسٹیٹیوٹ فاڈیمو کریسی اینڈفیڈرل ازم بل 2004،ایم ایچ پنہور انسٹیٹیوٹ آف سندھ اسٹڈیزبل 2025 متفقہ طور پرمنظورکرلیا۔ بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس منگل کو دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا گیا۔