سبدھ اسمبلی میں تعلیمی بورڈز کا ترمیمی بل پیش کرکے مزید غور کے لئے مجلس قائمہ کے سپرد کردیاگیا

سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری ایجوکیشن کا ترمیمی بل پیش کردیا گیا جسے ایوان کی متعلقہ مجلس قائمہ کو مزید غور و خوض کے لئے بھیج دیا گیا ہے اسٹینڈنگ کمیٹی بل پر مشاورت کر کے اگلے ہفتے اپنی تجاویز پیش کرے گی ۔ترمیمی قانون کے تحت تعلیمی بورڈز میں بھی بیوروکریٹس کا تقرر کیاجاسکے گا۔ نئے قانون کے تحت سندھ میں تعلیمی بورڈز کے سربراہان، ناظم امتحانات اور سیکریٹری ک کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جارہی ہے ۔سندھ بورڈز آف انٹرمیدیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن آرڈیننس 1972ء میں ترامیم کی جائیں گی جس کے نتیجے میں کسی بھی گریڈ 19کے کیڈر افسر کو تعلیمی بورڈ میں تبادلہ کیاجاسکے گا۔ تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی وزیراعلیٰ یا ان کا نامزد وزیر ہوگا۔تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی کسی بھی مرحلے پر افسر کو ملازمت سے برخاست کرسکے گی۔ترمیمی قانون کے تحت تعلیمی بورڈ کنٹرولنگ اتھارٹی کے علاوہ انکوئری نہیں کرسکیں گے ۔وزیراعلیٰ تعلیمی بورڈز میں براہ راست یا تبادلے کے ذریعے تعلیمی بورڈ میں تقرر کے مجاز ہونگے۔ تعلیمی بورڈ اور اسٹیئرنگ کمیٹی میں ممبران کا تقرر وزیراعلیٰ کا اختیار ہوگا ۔تعلیمی بورڈز کے انتظامی امور کی نگرانی اسٹیئرنگ کمیٹی کرےگی اوراسٹیئرنگ کمیٹی میں محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کا افسر بھی شامل ہوگا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے محمد فاروق اور دیگر نے بل پر ترامیم پیش کیں۔

پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں سندھ کے وزیر ماہی پروری محمد علی ملکانی نے محکمہ ماہی پروری سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ہے کہاکہ حکومت سندھ سمندری خوراک کی برآمدات بڑھانے کے لئے تمام ضروری اقدامات کررہی ہے اس ضمن میں وفاقی حکومت سے بھی رابطہ ہے ، جو لوگ فیکٹریاںلگاتے ہیں ان کی مدد کی جاتی ہے تاہم فیکٹریز کو سبسڈی نہیں دی جاتی ۔ سندھ میں مچھلیوں کی افزائش کے لئے کئی ہجریز موجودہیں وہاں بیج ڈالے جاتے ہیں۔ ہم حکومتی سطح پر دریاﺅں میں مچھلی کی بیج ڈالتے ہیں۔ سمندری خوراک پر یورپی یونین کی جانب عائد پابندی کے خاتھے کے لئے کوشش ہے کہ ان کے مقرر کردہ معیار کو حاصل کرلیا جائے تاکہ جھینگے اور مچھلی کی ایکسپورٹ پھر سے شروع ہوسکے ۔

وقفہ سوالات کے دوران سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے ڈپٹی اسپیکر نوید انتھونی سے کہا کہ بعض ارکان ایسے سوالات بھی دریافت کررہے ہیں جن کا تحریری طور پر دریافت کئے جانے سوالوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اورکسی رکن کی غیر موجودگی میں سوال کرنے کے بارے میں پہلے ہی رولنگ موجود ہے۔ایم کیو ایم کی ڈاکٹر فوزیہ حمید نے کہا کہ ماہی گیروں کی کالونیوں کی خستہ حالت ہے حکومت اس جانب توجہ دے ۔ ایم کیو ایم کے ااعجاز الحق نے کہا کہ غریب گھرانوں کے ماہی گیر کشتیوں میں ڈوب جاتی ہیںحکومت کی طرف سے ان کے لیئے کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم کے عبدالوسیم ایم کیو ایم نے پوچھا کہ شکار کے کے لئے جن جالوں پر پابندی ہے وہ اگر استعمال ہوتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوئی ہے؟

صوبائی وزیر محمد علی ملکانی نےکہا کہ بالکل ایسا ہوتا ہے مگر ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس ابھی تک کولڈ اسٹوریج کی سہولت موجود نہیں ہے لیکن اس پر ہم لوگوں کی مدد کریں گے۔ ایم کیو ایم کے صابر قائماخانی کے ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہا کہ ان کے محکمے نے جیٹیز اور میٹھے پانی کے لیے کام کیا ہے اور بہت سے نامکمل منصوبوں کی بحالی پر کام ہورہا ہے ۔ ہم کسی ماہی گیر سے کوئی ٹیکس نہیں لیتے ہیں۔ ماہی گیروں کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔فیول کی قیمتیں بڑہ گئی ہیں۔ کوشش کریں گے کہ ماہیگیروں کی مدد کریں۔

پی ٹی آئی کے شبیر قریشی نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں میں لڑائی ہوتی ہے۔ حدود کا تعین کس طرح کیا جاتا ہے ؟محمد علی ملکانی نے کہا کہ حدود کا تعین وفاقی حکومت کرتی ہے۔ محمد علی ملکانینے بتایا کہ کشتیوں کی چانچ پڑتال کا کاممیرین اور نیوی کی جانب سے ہوتا ہے تاکہ حادثات سے بچا جاسکے انہوں نے کہا کہ جس طرح گاڑیوں کی انسپیکشن ہوتی ہے اس طرح کشتیوں کی بھی ہوتی ہے۔

ایوان میں ارکان کے کئی توجہ دلاﺅ نوٹس بھی زیر بحث آئے ایم کیو ایم کی ڈاکٹر فوزیہ حمید نے اپنے توجہ دلاﺅ نوٹس میں کہا کہ سندھ میں ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس کے کیسز میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔ یہ اہم مسئلہ ہے۔ حکومت توجہ دے ۔وزیر صحت ڈاکٹر عذرہ پیچوہو نے کہا کہ واقعی یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ سندھ میں تعداد زیادہ اس لیئے زیادہ نظر آتی ہے کہ سندھ میں سب سے زیادہ اسکریننگ ہوتی ہے۔ صوبے میں ایچ آئی وی کے ٹریٹمنٹ سینٹر 28 موجود ہیں۔ ہم آگاہی کی مہم بھی چلاتے ہیں اورکمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشن کے ساتھ بھی مل کر کام کرتے ہیں علاوہ ازیںبچوں کے لیے بھی الگ سینٹرز کھولے ہیں۔ خواتین اور مردوں کے بھی الگ الگ سینٹرز کھولے گئے ہیں۔ آٹو لاک سرنج ساٹھ فیصد ہسپتالوں میں استعمال ہورہی ہے ۔ہیپاٹائٹس کی اسکریننگ اور ویکسینیش کے سینٹرز موجود ہیں وہ کام کررہے ہیں ۔ہیپاٹائٹس بی کی کیسز کم ہورہے ہیں اور سی کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ ہم نے کیماڑی اور قمبر شہدادکوٹ کی مکمل اسکریننگ کی ہے۔

ایم کیو ایم کے نصیر احمد نے اپنے توجہ دلاﺅ نوٹس کے ذریعے نشاندہی کی کہ ان کے حلقے میں سخی سلطان عرف منگھو پیر والے بابا کی مزار کی حالت خراب ہے ۔اس کی بہتری کے لیے سندھ حکومت نے کیا کیا ہے۔ پارلیمانی سکریٹری اوقاف شازیہ سنگھار نے کہا کہ کچھ مہینے پہلے اوقاف کے وزیر اور افسران نے مزار کا دورہ کیا۔ جہاں کام کروانے کی ضرورت تھی وہاں کام کروایا گیا ہے ۔ مزار کی گنبد کے تزئین کے لئے فنڈ مختص ہے ۔اگلے ہفتے پھر دورہ کریں گے ۔ مزار کے اطراف سے نشے بازووں کے ہٹانے کے لئے پولیس کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ مگر مچھوں کے کھانے کا انتظام وائلڈ لائف اور کی ایم سی کی جانب سے ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن صابر قائمخانی نے اپنے توجہ دلاﺅ نوٹس میں کہا کہ سندھ میں نقلی کھاد اورزرعی کیمیکلز بڑے پیمانے پر فروخت جاری ہے ۔جعلی پروڈکٹس سندھ میں زرعی زمینوں کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔

ایوان کی کارروئی کے دوران یم کیو ایم کے عامر صدیقی نے اپنی ایک تحریک اسحقاق پیش کی جوڈسٹرک ایسٹ میں پانی کی قلت سے متعلق تھی ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ افسر نے کی کال نہیں اٹھائی جو پانی کے مسئلے پر کی گئی تھی ۔ وزیر پارلیمانی امور ضیاالحسن النجار نے تحریک کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ تحریک استحقاق نہیں بنتی ہے۔اپوزیشن ارکان اچھے ہیں اور قانون کو جانتے ہیں۔ کل کو پھر ایسا ہوگا اگر عامر صاحب میرا فون نہ اٹھائیں تو میں بھی پرولیج موشن ڈال دوں۔ اگر پانی کا واقعی مسئلہ ہے تو حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کل پرسوں ایم ڈی واٹر بورڈ کو بلا لیں گے۔ بعد میں یہ تحریک رد کردی گئی ۔

اجلاس کے دوران سندھ اسمبلی کی رپورٹنگ کرنے والے پارلیمانی صحافیوں نے  پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف احتجاج کیا انہوں نے اس قانون کے خلاف سخت نعرے بازی کی اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے پی پی رکن سعدیہ جاوید سے کہا کہ صحافی احتجاج کررہے ہیں، آپ ترجمان سندھ حکومت ہیں ان سے ملاقات کریں اور ان کا مسئلہ معلوم کریں۔اس موقع پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر پارلیمانی امور و قانون ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ آج صحافیوں نے پیکا ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا۔ وفاقی حکومت نے جو ایکٹ پاس کیا اس پر چیئرمین پی پی پی کابڑا واضح موقف ہے ۔ہم نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وفاق کے سامنے کیس رکھیں گے لیکن فیک نیوز کلچر بھی ختم ہونا چاہیے ۔اکثر کسی کی عزت اچھالی جاتی ہے ۔صحافتی تنظیمیں فیک نیوز کلچر کو بھی دیکھیں۔ صحافی بھی معاشرے کا اہم ستون ہیں اور انکی بات سنی جاتی ہے ۔حکومت سندھ کی جانب سے یقین دہانی کرواتا ہوں وفاقی حکومت کے سامنے مسئلہ اٹھائیں گے۔ بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس بدھ کی دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

Spread the love
جواب دیں
Related Posts