سندھ اسمبلی نے گاڑیوں کی لازمی رجسٹریشن کا ترمیمی بل منظور کرلیا

سندھ اسمبلی نے دوماہ میں نئی گاڑی کی رجسٹریشن کروانا لازم   کرانے اور پرانی گاڑی کی بک کو بھی سرینڈر کرنے کا  ترمیمی بل  2024ء اور اسمبلی کی کارروائی آغاز پر قومی ترانے  پیش کرنے  کی قوائد و ضوابط میں ترمیم منظور کرلی ہے، جبکہ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے ایوان کو بتایا ہے کہ  کراچی میں 2018ء سے 2024ء تک خلاف قانون 8171 عمارتوں کے خلاف کاروائی ہوئی ہے۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس  پیر کو   سہہ پہر 3 بجے اسپیکر سید اویس قادر شاہ کی صدارت میں  شروع ہوا۔ اجلاس میں  تلاوت قرآن پاک ، نعت شریف اور قومی ترانہ  کے بعد  وقفہ  دعا کے دوران  فلسطینی  شہداء   کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی صحتیابی  اور سلامتی کے لئے دعا  ہوئی ۔

اجلاس  کے دوران  نجم مرزا نے موٹر وہیکل ٹیکس میں ترمیم کی رپورٹ ایوان میں پیش،  جبکہ صوبائی وزیر ایکسائز مکیش کمار چاولہ  نے صوبائی موٹر ویلکلز ترمیمی بل  2024ء   پیش کیا  ایوان کو بتایا کہ  ترمیمی بل کے بعد دوماہ میں نئی گاڑی کی رجسٹریشن کروانا لازم ہوگا ،پرانی گاڑی کی بک کو بھی سرینڈر کرنا ہوگا ۔ گاڑی مالکان پر لازم ہوگا کہ وہ ڈجیٹل کارڈ بنوائیں، اگر قانون پر عمل نہیں کیا گیا تو  جرمانے میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ ایوان نے ترمیمی بل   کی منظوری دے دی ۔بل میں قانون پر عمل نہ کرنے  پر غیر معمولی جرمانے کی  تفصیل بیان کی گئی ہے۔ صوبائی وزیر کے مطابق اس قانون پر عمل درآمد کے بعد اوپن لیٹر پر گاڑی کا استعمال تقریباً ختم ہوجائے گا۔ ایوان میں قوائد و ضوابط 2013ء میں ترمیم کرکے اجلاس کے شروع میں قومی ترانہ لازمی قرار دینے کی ترمیم بھی متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

قبل ازیں محکمہ بلدیات سے متعلق وقفہ سوال کے دوران  صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کو جواب دیتے ہوئے بتایا کہ غیرقانونی تعمیرات میں ملوث افسران کے خلاف کیا کارروائیاں ہوئی ہیں اور بہت سے افسران کو سزا کے طور پر کراچی سے باہر ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ اس سے ودیگر افسران کو بھی پیغام گیا۔کورنگی فلائی اوور سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ وہاں اس قسم کے دو فلائی اوور ہیں بجلی کے بڑے بڑے ٹاورز لگے ہوئے ہیں۔ ٹاورز کو مد نظر رکھتے ہوئی یہ فلائی اوور بنایا گیا۔ وزیر بلدیات نے کہا کہ شاہراہ بھٹو کامنصوبہ اس سال دسمبر میں مکمل ہوجائے گا۔ یہ بڑا منصوبہ ہے اورمارچ میں شاہراہ کو قائدآباد تک کھول دیں گے ،اس سے شہریوں کو بڑا فائدہ ہوگا۔

سیعد غنی نے ایوان کو بتایا کہ کراچی میں خلاف قانون 8171 عمارتوں کے خلاف کاروائی ہوئی، سال 2018ءمیں 1153، سال 2019ء میں 920،سال 2020ء میں 976، سال 2021ء میں 1308، سال 2022ء میں1142، سال 2023ء میں893 اور 2024میں 1784 عمارتوں کے خلاف کاروائی ہوئی۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بڑے مسائل ہیں ،ممکنہ حد تک کاروائیاں ہوتی ہیں، کاروائیوں کے باوجود غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کو روک نہیں سکے ۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا کوئی افسر ملوث ہوگا تو کاروائی کریں گے ،موجودہ قوانین میں 20 فیصد غیر قانونی تعمیرات کی اجازت ہے ،اب قانون میں تبدیلی کرنے جا رہے ہیں جس کے تحت غیر قانونی تعمیرات کی زیرو فیصد اجازت نہیں ہوگی اورغیر قانونی بلڈرز پر ایک کروڑ روپے جرمانہ کریں گے۔ تمام ارکان سے کہا کہ وہ غیر قانونی عمارات کے خلاف مجھے آگاہ کریں۔ارکان کی جانب سے کہا گیا کہ پیڈسٹل برجز کو کوئی نہیں دیکھ رہا، معذور بھی استعمال کرتے ہیں، اس پر فقیر بیٹھے ہوتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ جہاں سے شکایت آتی ہے وہاں کارروائی کرتے ہیں اوربرجز کی ریگیولر صفائی ہونی چاہیے،نشے بازوںں کو وہاں سے ہٹائیں گے۔ ڈی اے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین تبدیل کئے گئے ہیں،حیدرآباد میں فائر فائٹنگ کا کوئی معقول انتظام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ایم کیو ایم کی قراة العین خان نے کہا کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا نہیں کیے جاتے، پینشن کے لیے بھی لوگ پریشان ہوتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ یہ مسئلہ بالکل جائز ہے اس کو حل کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ پینشن اور ریٹائرمنٹ دینے کے لیے کی ایم سی کو تیرہ ارب روپے درکار ہیں۔ ابھی ایچ ڈی اے کی بھی درخواست آئی اور 500 ملین کابینہ نے منظور کئے ہیں۔کی ایم سی اور کے ڈی اے کا جو مسئلہ ہے اس پر کی ایم سی نے پونے 3 ارب روپے سندہ حکومت سے قرضہ مانگا تھا۔ ہم خود چاہتے ہیں کہ اس مسئلے سے نکل آئیں۔ شہر میں تجاوزات کے حوالے سے وزیر بلدیات نے کہا کہ یہ مسئلہ تمام شہروں کا ہیں۔ پتھاروں کو ہم ہٹاتے ہیں پھر آجاتے ہیں۔ دوکان والے اپنے دوکان کے آگے پتھارہ لگانے کے پیسے لیتے ہیں۔ کچھ مقامات پر ہم دیکھ رہے ہیں جہاں پتھاروں کو شفٹ کریں گے لیکن وہاں بھی مسائل ہوتے ہیں اور آرڈرز آجاتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے بتایا کہ یو سی چئرمینز کو کہا گیاہے کہ مین ہول کور اپنے پاس بنوا کر رکھیں۔ اس حوالے سے میئر کراچی نے شکایتی نمبر بھی دیا ہے۔ شہری شکایت کریں اور فوری میں ہول کور لگ جائیگا۔ کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں ہم روزانہ کور رکھیں تو روزانہ پھر لگانا پڑے گا۔ سعید غنی نے کراچی چڑیا گھر سے متعلق بتایا کہ اب وہاں جانوروں کا مناسب خیال رکھا جاتا ہے۔

ایوان کی کارروائی کے دوران عوامی مسائل پر مختلف ارکان نے اپنے توجہ دلاﺅ نوٹس بھی پیش کئے ایم کیو ایم کی رکن قراةالعین نے کہا کہ شہر میں میگا فون کے استعمال پر پابندی عائد ہے لیکن سبزی والے ٹین ڈبے والے میگا فون استعمال کرتے ہیں۔جس سے بچوں اور بوڑھوں کو مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس موقع پروزیر داخلہ۔ ضیاءالحسن النجار نے کہا کہ اس ایوان میں کچھ دیر پہلے بغیر میگافون کے بہت زیادہ شور و غل تھا۔انہوں نے کہا کہ میگا فون کے استعمال پر صرف ایک مقدمہ درج ہوا ہے کراچی کی گلیوں میں چھوٹے اسپیکر استعمال ہوتے ہیں۔ یہ پورے سندھ کا ایشو ہے ۔سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان نے اپنے بانی کی رہائی کیلئے احتجاج بھی کیا۔اس موقع پرارکان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ ز تھے انہوں نے نعرے بازی بھی کی۔

جماعت اسلامی کے محمد فاروق نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ممبر اسمبلی کے معطلی کے نوٹیفکیشن پر پوائنٹ اف آڈرپیش کیا۔محمد فاروق کے اعتراض پر وزیر کھیل محمد بخش خان مہر اسمبلی اجلاس سے باہر چلے گئے۔ محمد فاروق نے شاہ فیصل اور ملحقہ علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے پر بھی توجہ دلاﺅ نوٹس پیش کیا۔ وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ شاہ فیصل آخری علاقہ ہے جسے دو جگہ سے پانی ملتا ہے۔ وہاںاکثر بجلی نہیں ہوتی دور ہونے کی وجہ سے پانی کم ملتا ہے۔  رفاع عام سوسائٹی میں کچھ خرابی تھی اسے بھی دور کر دیا گیاہے۔دسمبر تک پانی کا مسئلہ کافی حد تک ٹھیک ہو جائے گا۔وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں ایوان کو بتایاکہ کراچی کو پانی کی فراہمی کے میگا منصوبے کے فور پر کام تیزی سے جاری ہے اور یہ منصوبہ جولائی 2026 تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تین حصوں پر علیحدہ علیحدہ کام تیزی سے جاری ہے اور اس کے لئے وزیر اعلٰی سندھ نے دوسرے حصہ کے لئے 7 ارب روپے ورلڈ بینک سے منظوری کا انتظار نہ کرنا پڑے اس لئے دینے کا اعلان کردیا ہے۔  کے فور منصوبے کے تین حصوں کا کام ایک ساتھ چل رہا ہے، جس میں کینچھر سے کراچی کے لئے واپڈا کام کررہا ہے جو 55 فیصد مکمل ہوگیا ہے اور یہ دسمبر 2025 تک مکمل ہوجائے گا، دوسرا فیز یوٹیلیٹی کی شفٹنگ کا ہے، جو کراچی واٹر اینڈ سیوریج امپرومنٹ پروگرام کے تحت کیا جارہا ہے اور اس کے لئے وزیر اعلٰی سندھ نے ورلڈ بینک سے منظوری کا انتظار کئے بغیر 7 ارب روپے جاری کئے ہیں اور یہ کام بھی دسمبر 2025 تک مکمل کرلیا جائے گا جبکہ اس کا تیسرا مرحلہ 50 میگاواٹ کے پاور اسٹیشن کی تعمیر کا ہے جو 16 ارب روپے کی لاگت کا ہے، اس پر بھی حیسکو نے کام شروع کردیا ہے اور انشاء اللہ اگر کوئی رکاوٹ نہیں آئی تو یہ بھی دسمبر 2025 تک مکمل کرلیا جائے گا، جس کے بعد ٹیسٹنگ کا مرحلہ ہوگا اور جون 2026 تک یہ منصوبہ مکمل کرکے کراچی کو پانی کی فراہمی شروع ہونے کا امکان ہے۔

ایم کیو ایم کے مہیش کمار نے اپنے توجہ دلائو نوٹس میں کہا کہ چھوٹی عمر کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور سندھ میںجبری شادیاں بھی ہو رہی ہیں،جبکہ جبری مذہب تبدیلی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہ صرف قانونی مسئلہ نہیں انسانی مسئلہ ہے ۔وزیر داخلہ ضیا ءالحسن لنجار نے کہا کہ ہمارے پاس 2024 میں چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت 30 ایف آئی آرز کراچی میں درج ہوئی ہیں ،ان میں 40 افراد گرفتار ہوئے ہیں ،تمام مقدمات کورٹ میں ہیں ،کبھی کبھی ایس ایچ او شوکاز نوٹس ہوتے ہیں۔ ہم لوگ سب سے زیادہ اقلیتوں پر توجہ دیتے ہیں،کہیں بھی کوئی زیادتی ہوتی ہے ہماری لیڈرشپ نوٹس لیتی ہے۔

ایوان کی کارروائی کے دوران قائد حزب اختلاف علی خورشیدی نے کہا کہ کراچی شہری سندھ کے طلبہ کے ساتھ انٹر بورڈ کے نتائج پر ہونے والی ناانصافیوں پر سندھ اسمبلی میں پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے ۔کراچی کے طلبہ کے تعلیمی حقوق کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔ انٹر بورڈ میں شہری سندھ کے طلبہ کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کریں گے، علی خورشیدی نے اپنے نقطہ اعتراض پر یہ بھی کہا کہ کراچی میں ٹریفک کا نظام بالکل تباہ ہوچکا ہے ۔ شہر میں میں پندرہ منٹ کاسفر دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے ۔اگر ٹریفک پولیس سے کام نہیں ہورہا تو اراکین اسمبلی ڈیوٹی لگادیں ۔ہم سب روڈ پر جا کر ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں۔ بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس منگل کو دوپہر ڈھائی بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

Spread the love
جواب دیں
Related Posts