وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ محکمہ بلدیات کے زیر انتظام محکموں میں زیادہ تر محکموں میں ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کی جارہی ہے البتہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کا معاملہ ہے۔ کے ایم سی میں سابق مئیر وسیم اختر نے ان ملازمین کے جو پیسے علیحدہ اکاﺅنٹ میں جمع ہوتے تھے اس کو بھی خرچ کردیا تھا۔ سندھ حکومت اس وقت بھی کے ایم سے کو ماہانہ 1.2 ارب ہر ماہ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کررہی ہے، جو سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے اپنے دور میں ایک بار500 ملین ادھار مانگے تھے۔ ڈسٹرکٹ ایسٹ میں سندھ سولڈ ویسٹ کے تحت جو چائنیز کمپنی کام کررہی تھی اس کا کنٹریکٹ دوبارہ اس لئے نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ ادائیگی کو ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں نہیں لینا چاہتی۔ قانونی چارجڈ پارکنگ کے علاوہ شہر میں جتنی بھی غیر قانونی پارکنگ ہیں اس ہے خاتمہ کی ذمہ داری محکمہ بلدیات نہیں بلکہ پولیس و قانون نافذ کرنے والوں کا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو سندھ اسمبلی میں مختلف ارکان کی جانب سے توجہ دلاﺅ نوٹس کے جواب میں کیا۔
جمعہ کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں سندھ کے سینئر وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے محکمہ ٹرانسپورٹ سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جوب دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سندھ کراچی سمیت صوبے بھر کے لوگوں کو آرام دہ اور بہترین سفر سہولتوں کی فراہمی کے منصوبے پر کام کررہی ہے ، سندھ کابینہ نے کراچی کے لئے مزید ای وی بسوں کے حصول کی منظوری دیدی ہے ، شہر میں پہلے ہی پنک بسیں بھی چل رہی ہیں،ریڈلائن منصوبہ پاکستان کاواحد منصوبہ ہے جس پربایوگیس پربسیں چلیں گی۔
بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے انہوں نے ایوان کو بتایا کہ دوڈپوﺅںپرسول ایوی ایشن کے ساتھ جوتنازعہ تھا وہ حل ہوگیاہے۔ نگران سیٹ اپ نو ماہ چلا اس دوران اس منصوبے پر رتی بھرکام نہیں ہوا۔اس منصوبے کے حوالے سے یوٹلٹی اداروں کی جو لائنیں گزررہی ہیں وہ بھی مسئلہ ہیں، کار شو رومز والوں نے بھی اوورہیڈ برج کامطالبہ کیا جس پرڈھائی ارب لاگت آئے گی ان کا یہ مطالبہ ہم افورڈ نہیں کرسکتے ۔روڈوں پر سائیکلنگ لین کے حوالے سے کہا کہ یہ اچھی تجویز ہے، لیکن یہ آئیڈل شہروں کے لیے ہے۔ ریڈ لائین اور گرین لائین ٹریک پر سائیکل چلائی جا سکتی ہے مگر شاہراہ فیصل پر سائیکل نہیں چل سکتی کیونکہ بدقسمتی سے لوگ فوٹ پاتھ پر موٹرسائیکلیں کھڑی کردیتے ہیں۔ وزیر ٹرانسپورٹ نے کہا کہ ٹریفک کا نظام ہم نے خود خراب کیا ہے ،ہم سگنل بھی توڑتے ہیں اور بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے گاڑی بھی چلاتے ہیں۔
شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ان کی کل ہی چائنیز کمپنی کے لوگوں سے ملاقات ہوئی ہے ہم چاہ رہے ہیں کہ چائنہ کی بس کمپنی یہاں پلانٹ لگائے ،نگراں حکومت میں بھی بسیں پھنس گئی تھیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریڈ لائن اسٹیشن پر سائکلز کی پارکنگ کا بندوبست ہوگا۔ آٹو رکشہ سے متعلق سوال پر وزیر ٹارنسپورٹ نے کہا کہ رکشہ تمام پاکستان میں چلتا ہے اور ہزاروں لوگوں کا اس سے روزگار وابستہ ہے ۔ رکشہ کو ای وی پر ٹرانفسر کرنے کوئی ٹیکنالوجی ابھی پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ای وی بسیں سب سے پہلے سندھ میں آئیں۔ حکومت کے محکمے کو پابند کیا گیا ہے کہ آپ ای وی گاڑیاں خریدیں۔ پاکستان کی پہلی حکومت ہے جس میں ای وی ٹیکسیز شروع کرنے جا رہی ہے ۔سینئر وزیر نے کہا کہ کراچی سمیت ہر ضلع ہماری ترجیحات میں شامل ہے ہماری کوشش ہے کہ ریڈ لائن سندھ کے ہر علاقے میں چلائیں۔ کراچی بڑی آبادی والا شہر ہے اس لئے پہلے یہاں شروع کیا گیا ہے ۔ایک اور سوال پر کہا کہ عالمی فنڈڈ پروگرامز کے انٹرسٹ ریٹ بہت کم ہوتے ہیں۔ شرجیل انعام میمن نے بتا یا کہ گرین لائین وفاق کا منصوبہ ہے جواس مہینے میں ہمارے حوالے ر ہو رہا ہے۔
اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے رکن عبدالوسیم کے توجہ دلاﺅ نوٹس پر جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی میں مسائل موجود ہیں اور بہت سے ملازمین پریشان ہیں۔ اب کے ایم سی میں پینشن ریگولر مل رہی ہے اور پی ایف بھی ادا کردئے گئے ہیں البتہ واجبات کی مد میں 13 ارب روپے کے بقایاجات ہیں جبکہ جولائی 2017ء تک کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کردئیے گئے ہیں اس کے بعد کے بقایا ہیں۔ ڈی ایم سیز کے ملازمین کے بقایاجات 2023ء تک کے ایم سی کو ادا کرنے چاہیے یہ ہمارا موقف ہے اس کے بعد کے بقایاجات ٹائونز کو ادا کرنے ہیں۔ نئے ملازمین پر تو یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو ٹاﺅن ادا کرے لیکن پرانے پر نہیں۔ سندھ حکومت آج بھی 1.2 ارب روپے ہر ماہ کے ایم سی کو تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کرتی ہے، جو کسی دور میں اس وقت کے سٹی ناظم مصطفی کمال نے ایک ماہ کے لئے 500 ملین ادھار مانگیں تھے اور یہ آج تک سندھ حکومت ادا کررہی ہے اور یہ رقم اب بڑھ کر 1.2 ارب روپے ماہانہ ہوگئی ہے۔ کے ایم سی کی مزید ڈیمانڈ پر سندھ حکومت نے 2.76 ارب روپے کے ایم سی کو لون کی مد میں دینے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ اس وقت کے ایم سی کے اپنے ذرائع سے بھی ان کے ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ہر ادارے میں ملازمین کی تنخواہوں کا اکاﺅنٹ الگ ہوتا ہے، لیکن سابقہ مئیت وسیم اختر نے وہ پیسے کسی اور مد میں خرچ کردئیے تھے۔
صوبائی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ کے ڈی اے میں ستمبر 2020ء کے بعد کے ملازمین کے 3.8 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ انہوں نے بھی سندھ حکومت کو 3 ارب روپے کی گرانٹ ہے لئے لکھا ہے۔ جبکہ ہم کے ڈی اے کو بھی ماہانہ 40 کروڑ روپے تنخواہوں اور پنشن کی مد میں سندھ حکومت دے رہی ہے۔ کے ڈی اے میں بھی تمام پینشنرز کو باقاعدگی سے پینشن مل رہی ہے۔ اسی طرح کابینہ نے حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے لئے گذشتہ روز کابینہ نے 500 ملین کی گرانٹ منظور کی ہے البتہ اس کے میکنزم کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی بنائی گئی ہے تاکہ آئندہ اس طرح ملازمین۔ کے واجبات ادا کرنے میں مشکلات نہ ہوں۔
سعید غنی نے کہا کہ اس وقت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کسی ملازم کے واجبات نہیں ہیں جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں جولائی 2020ء ہے بعد سے دسمبر 2024ء تک 5.1 ارب کے واجبات ہیں، جن میں سے ان کے کئی سرکاری اداروں پر 2.1 ارب ہے واجبات ہیں جس کی ری کنشیلیش کرلی گئی ہے، جبکہ واٹر بورڈ کا 2.5 ارب کا دعویٰ ہے۔ اس کے علاوہ واٹر بورڈ کے وفاقی اداروں پر بھی 12.5 ارب روپے کا دعوہ ہے، جس کی ری کنشیلیشن کروائی جارہی ہے اور اس وقت واٹر بورڈ کے ریونیو بھی بہتر ہورہا ہے تو انشاء اللہ وہاں بھی ملازمین کے واجبات جلد ادا کردئیے جائیں گے۔
ایم کیو ایم کے رکن عامر صدیقی نے اپنے توجہ دلاﺅ نوٹس میں کہا کہ ان کے حلقے بشمول جمشید ٹاﺅن وغیرہ میں صفائی اور کچرہ نہیں اٹھایا جاتا۔ اس غفلت کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ بنوری ٹاﺅن جہاں کئی غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہے اس کے پاس کچرہ کنڈی ہے اور وہاں کا یوسی چیئرمین کوئی کام نہیں کرتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ صرف معزز ممبر نہیں بلکہ اس وقت ڈسٹرکٹ ایسٹ کے تمام ٹائونز میں سولڈ ویسٹ کے حوالے سے اشیو ہے، جس کی وجہ وہاں جو چائنیز کمپنی کو کنٹریکٹ دیا گیا تھا اس کے کنٹریکٹ کی معیاد پوری ہوگئی ہے اور ہم اس کا دوبارہ کنٹریکٹ بحال بھی کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ دیگر کا کیا ہے۔ جو کمپنیاں کام کررہی ہیں جب ان سے معاہدہ ہوا تو وہ ڈالر میں ہوا تھا تاہم اب ہم نے تمام کے کنٹریکٹ پاکستانی روپوں منتقل کردئیے ہیں کیونکہ ڈالر سے ادائیگی مہنگی ہورہی تھی۔ مذکورہ چائنیز کمپنی اپنے معاہدے کو پاکستانی روپے کی بجائے ڈالر میں رکھنے کی خواہ ہے جبکہ باقی مانندہ تمام نے پاکستانی روپے میں ادائیگی کو مان لیا ہے۔ اس سلسلے میں سولڈ ویسٹ جلد ہی نیا کنٹریکٹ کسی دوسری کمپنی کو دے دے گا۔ ابھی ڈور ٹو ڈور کچرا اٹھانے والا کام شروع نہیں ہوا ہے، جبکہ جو ملازمین سولڈ ویسٹ سے ٹاﺅنز کو منتقل کئے گئے ہیں وہ دراصل مستقل ملازمین ہیں اور چونکہ اب کچڑہ اٹھانے یا صفائی کا کام ٹاﺅنز کا نہیں بلکہ سولڈ ویسٹ کا ہے اس لئے ہم۔نے ان ملازمین کو دیگر کاموں کی طرف بھیجا ہے جبکہ ان ملازمین میں سے کئی گھوسٹ ملازمین بھی تھے جنہوں نے اپنی جوائننگ ہی نہیں دی اور انہیں فارغ کردیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے معاذ محبوب نے کہاکہ کراچی کی عوام سےغیر قانونی چارجڈ پارکنگ سے کروڑوں روپے روزانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ 16 سال سے سندھ حکومت میں ہیں کراچی کے لیے ایک پارکنگ پلازہ تک نہیں بنا سکے۔ صوبائی سعید غنی نے کہا کہ شہر میں کے ایم سی اور کچھ ٹاﺅنز کی چارجڈ پارکنگ موجود ہیں، جس پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جارہا ہے البتہ غیرقانونی پارکنگ کسی ٹاﺅن یا کی ایم سی کے اختیار میں نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے تعینات کردہ مقامات کے علاوہ اگر کہیں پارکنگ ہے تو وہ قانون کے خلاف ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور یہ کارروائی کا اختیار لوکل گورنمنٹ نہیں بلکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کا ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ ایم کیو ایم کی ڈاکٹر فوزیہ حمید کے ایک توجہ دلاﺅ نوٹسکے جواب میں صوبائی وزیر شاہین شیر علی نے بتا یا کہ ایک ڈے کیئر سینٹر محکمہ چلاتا ہے جو اسٹیٹ لائیف بلڈنگ میں موجود ہے کراچی اور مہران یونیورسٹیز میں بھی ڈے کیئر سینٹر موجود ہے ،سکھر میں بھی ڈے کیئر سینٹر موجود ہے ،مستقبل میں ہم ایک سو پندرہ ڈے کیئر سینٹر بنانے جا رہے ہیں۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کے دوران وزیر پارلیمانی امور ضیاءالحسن لنجار نے ڈیننگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ انٹرپرونرشپ ایوان میں پیش کردیا جو مزید غور کے لئے قائمہ کمیٹی کے سبرد کردیا گیا جو ایک ہفتے میں رپورٹ دے گی۔ایوان کی کارروائی کے دوران جماعت اسلامی کے رکن محمد فاروق نے نقطہ اعتراض پر کہا کہ آج پورے سندھ میں پروفیسر اور اساتذہ ہڑتال پر ہیں یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کی تقرری پر پی ایچ ڈی کی شرط ختم کردی گئی ۔سرکاری افسران کو وائس چانسلر مقرر کرنے کا قانون لایا جا رہا ہے بعدازاںسندھ اسمبلی کا پیر کی دوپہر ڈھائی بجے تک ملتوی کردیا گیا۔