سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 62 ارب روپے کی روائیز اسکیم کے تحت 2001ء میں شروع کئے جانے والے 273 کلو میٹر طویل آر بی او ڈی ٹو منصوبے پر 2015ء سے کام بند پڑے ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے آر بی او ڈی ٹو منصوبے پر کام بند ہونے اور وفاق سے فنڈنگ کا اجراء نہ ہونے پر واپڈا چیئرمین اور واپڈا حکام کو آئندہ اجلاس میں بریفنگ کے لئے طلب کرلیا ہے۔جبکہ پی اے سی نے محکمہ آبپاشی سندھ کو آر بی او ڈی منصوبے پر کام شروع کرنے کے لئے فنڈنگ اور فنی معاملات واپڈا اور وفاقی حکومت سے فوری ٹیک اپ کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ پی اے سی نے آر بی او ڈی منصوبے کے ریکارڈ کی حوالگی کے متعلق نیب،محکمہ آبپاشی،محکمہ روینیو کے افسران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی جو 15 دنوں میں ریکارڈ وصول کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔
سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس پیرکو چیئرمین نثار کھوڑو کی صدارت میں کمیٹی روم ہوا۔اجلاس میں کمیٹی کے اراکین قاسم سراج سومرو،خرم کریم سومرو، مخدوم فخرالزمان نے شرکت کی۔ اجلاس میں نیب کے ڈاریکٹر عبدالحفیظ صدیقی، سیکریٹر آبپاشی ظریف کھیڑو، سیکریٹری فنانس فیاض جتوئی سینیئر میمبر بورڈ آف روینیو بقاء اللہ انڑ نے پی اے سی کو آر بی او ڈی منصوبے کے متعلق بریفنگ دی۔
ڈاریکٹر نیب عبدالحفیظ صدیقی نے پی اے سی کو بتایا کے آر بی او ڈی منصوبے پر نیب کے پاس 4 تحقیات چل رہی تھی جس میں آر بی او ڈی منصوبے کے لئے زمین کی خریداری کے متعلق 400 ملین روپے کی بے ضابطگیوں کی تحقیات میں صرف نیب نے ریکارڈ لیا تھا جو کے نیب ترامیم کی وجہ سے اب نیب کے دائرے میں نہیں آتا جس کو نیب ھیڈکوارٹر ریفر کیا گیا ہے اور اب نیب ھیڈکوارٹر سے منظوری ملنے کے بعد یہ معاملہ احتساب عدالت سے اینٹی کرپشن عدالت منتقل ہوجائے گا اور نیب نے زمین کی خریداری کے متعلق تحویل میں لیا گیا ریکارڈ رواں ماہ 2 جنوری کو ٹھٹہ اور جامشورو کے روینیو افسران کے حوالے کردیا ہے اور نیب صرف آر بی او ڈی ٹو منصوبے پر 5 ارب کی انکوئری کر رہا ہے جس انکوئری میں بھی نیب نے کوئی ریکارڈ تحویل نہیں لیا ہے اس لئے نیب کے پاس اب آر بی او ڈی منصوبے کے متعلق کوئی ریکارڈ تحویل میں نہیں ہے اور نیب نے جب سے اس منصوبے پر انکوائری کی ہے تب سے نیب نے محکمہ آبپاشی کو منصوبے پر کام کرنے سے نہیں روکا ہے۔
ڈی سی جامشورو اور ایس ای ٹھٹھہ نے پی اے سی کو بتایا کے نیب کی طرف سے ہمیں کوئی ریکارڈ نہیں ملا ہے۔ جس پر کمیٹی رکن خرم کریم سومرو نے محکمہ آبپاشی سے استسفار کیا کے اگر نیب نے محکمہ آبپاشی کو آر بی او ڈی منصوبے پر کام بند کرنے کی کوئی ہدایت نہیں کی تھی تو پہر منصوبے پر کام بند ہونے کا ذمیدار کون ہے جس پر محکمہ آبپاشی کے سیکریٹری نے بتایا کے ریکارڈ کے بغیر آر بی او ڈی منصوبے پر کیسے کام آگے بڑھاسکتے تھے۔
کمیٹی رکن قاسم سراج سومرو نے کہا کے آر بی او ڈی میں 10 ارب کی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کی وجہ سے یہ منصوبہ 10سالوں سے بند پڑا ہے اب اس منصوبے کی۔لاگت 400ارب تک پہنچ گئی ہے تو اب وفاقی حکومت کہاں سے 400 ارب دے گی۔پی اے سی نے ریکارڈ کی حوالگی کے لئے نیب ، محکمہ آبپاشی اور بورڈ آف روینیو کے افسران پر۔مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے دی جو کمیٹی ریکارڈ کے حصول کے بعد 15 دن کے اندر ریکارڈ وصول ہونے کی رپورٹ پی اے سی کو فراہم کرے گی۔
اجلاس میں محکمہ آبپاشی کیجانب سے آر بی او ڈی ٹو منصوبے پر 40 ارب روپے خرچ کئے جانے کے باوجود آر بی او ڈی ٹو منصوبے کو ناقابل عمل منصوبہ قرار دے دیا۔سیکریٹری آبپاشی ظریف کھیڑو نے پی اے سی کو بتایا کے آر بی او ڈی منصوبہ جس طرح ڈزائین ہے اگر اسی طرح بنا تب بھی آر بی او ڈی کا زھریلہ پانی سمندر کو تباہ کرے گا اور سیلاب کا پانی کے نقصان سے بچاؤ بھی مشکل ہوگا اسلئے یہ منصوبہ فزیبل نہیں ہے اور اس منصوبے کی پی سی ون روائیز ہوگی جو کے 400 ارب سے زائد تک جائے گی اس لئے آر بی او ڈی کے فنی معاملات اور فنڈنگ کے لئے واپڈا اور وفاقی حکومت سے بات کی جائے۔
سیکریٹری خزانہ فیاض جتوئی نے پی اے سی کو بتایا کے 2001ء میں 14 ارب سھ شروع ہونے والہ یہ منصوبہ دو مرتبہ روائیز ہوکر 2016ء میں 61.985 ارب تک پہنچا یہ منصوبہ وفاق کا تھا جس کو واپڈا نے شروع کرنا تھا اور واپڈا نے محکمہ آبپاشی سندھ کو اس منصوبے پر کام شروع کرنے کی ذمیداری دی تھی۔ اس منصوبے پر وفاق کا حصہ 54.98ارب روپے تھا اور سندھ حکومت نے ذمے 7 ارب رکھے گئے تھے اس منصوبے پر سندھ حکومت 4 ارب جاری کر چکی ہے اور وفاقی حکومت نے 2019ء میں صرف 5 ارب روپے جاری کئے مگر 2021ء سے وفاق نے آر بی او ڈی پر کوئی رقم جاری نہیں کی ہے۔جبکے اس منصوبے پر 39 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔
چیئرمین پہ اے سی نثار کھوڑو نے کہا کہ آر بی او ڈی منصوبہ اگر فزیبل نہیں ہے تو پہر 40 ارب روپے کیوں خرچ کئے گئے۔آر بی او ڈی منصوبہ سندھ کی ضرورت ہے اس منصوبے پر کام بند پڑا رہنا ہماری ناکامی ظاہر کررہا ہے۔منصوبے میں 10 ارب کی بے ضابطگیوں کی نیب یا اینٹی کرپشن کی تحقیات کی وجہ سے پورے منصوبے کو ناقابل عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔
چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے مزید کہا کے اگر آر بی او ڈی منصوبہ 40 ارب خرچ ہونے کے بعد اب فزیبل نہیں ہے تو پہر محکمہ آبپاشی کے پاس دوسرا کیا آپشن ہے۔آر بی او ڈی منصوبے پر 10 سالوں سے کام بند پڑا ہے سندھ کو آر بی او ڈی منصوبے پر کام شروع چاہئے۔آر بی او ڈی منصوبہ اگر مکمل ہوتا تو وہ پانی سمندر میں چھوڑا جاتا جس وجہ سے منچھر اور سندھو دریاء کا پانی زھریلہ نہ ہوتا۔
اجلاس میں محکمہ آبپاشی کیجانب سے آر بی او ڈی منصوبے پر کام۔شروع کرنے کے لئے منصوبے کی پی سی ون روائیز ہونے سے منصوبے پر لاگت 400 ارب تک پہنچنے کا انکشاف ہوا جس پر چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کے وفاقی حکومت کو آر بی او ڈی منصوبے پر فنڈنگ کرنی پڑے گی اس لئے یہ معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے ٹیک اپ کیا جائے گا۔ محکمہ آبپاشی منصوبے کے متعلا فنی معاملات اور منصوبے کو روائیز کرانے کے لئے فوری واپڈا اور وفاقی حکومت کو لکھے۔سندھ آر بی او ڈی منصوبے سے دستبردار نہیں ہوگی یہ منصوبہ سندھ کی ضرورت ہے اس لئے منصوبے پر کام چاہئے۔