سندھ اسمبلی کا اجلاس دو ماہ کے وقفے کے بعد ہونے والا اجلاس اپوزیشن کی شدیدہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا، ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں کراچی کے طلبہ کی بڑی تعداد کو فیل کردینے کے معاملہ پر بات کرنا چاہتے تھے، قائم مقام اسپیکر نے فوری اجازت نہ دی تو اپوزیشن ارکان بپھر گئے اور انہوں نے حکومت سندھ کے خلاف شدید نعرے بازی اور احتجاج شروع کردیا۔اپوزیشن کے شور شرابے اور نعرے بازی کے باعث ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ایم کیو ایم کے ارکان نے ایوان میں ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں۔ احتجاج کے دوران ایوان ” کراچی کو پانی دو” "ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے” اور دیگر نعروں سے گونج اٹھا۔
جمعہ کو سندھ اسمبلی کا اجلاس 20 منٹ تاخیر سے سہہ پہر 3 بجکر 20 منٹ پر قائم مقام اسپیکر انتھونی نوید کی صدارت میں شروع ہوا۔ تلاوت قرآن پاک، نعت شریف اور فاتحہ کے بعد آغاز میں ہی اپوزیشن کے شور شرابے نے ماحول گرما دیا۔ فرینڈلی اپوزیشن کے طعنوں کے بعد ایم کیو ایم نے ایوان میں ہنگامہ آرائی کی، کارروائی میں رکاوٹ ڈالی، اور کراچی کے مسائل پر بغیر کسی کارروائی کے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کا مطالبہ کیا۔ روکے جانے پر ایوان میں مزید شور شرابہ شروع کر دیا۔ قائم مقام اسپیکر نے ارکان سے وقفہ سوالات کے بعد موقع دینے کا کہا،تاہم ارکان نے احتجاج جاری رکھا، جس پر اسپیکر نے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے متعلق وقفہ سوالات شروع کرنے کے لئے کہہ دیا۔وزیر ایکسائز مکیش کمار چاﺅلہ نے ابھی سوالات کے جواب دینے شروع ہی کئے تھے کہ اپوزیشن کی نشستوں پر کھڑے ہوکر مطالبہ کیا کہ پہلے انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسپیکر نے کہا کہ اگر اپوزیشن وقفہ سوالات میں سوال نہیں پوچھنا چاہتیں تو ہم آگے بڑھ جاتے ہیں جس پر وہ بولیں کہ ہم پہلے کراچی کے اہم مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں۔اسپیکر نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو بات کرنے کی جازت دینے سے انکار نہیں کررہا ہوں لیکن بعد میں بات کرلیجئے گا۔ اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے کہاکہ ہم پہلے کراچی کے مسائل پر بات کی اجازت دی جائے ۔اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے ایوان میں شور شرابہ اور نعرے بازی شروع کردی۔
ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی اعجاز الحق نے کہا کہ شہری سندھ کے بچے رو رہے ہیں ،جو بچے میٹرک میں اے ون میں پاس ہوئے وہ انٹر میں فیل کیسے ہوگئے اور اتنے برے نتائج کیوں آئے ہیں۔میڈیکل کے نتائج بھی ٹھیک نہیں ہیں ۔یہ کراچی کے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے اس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ کراچی کے بچوں کو پیچھے کیوں دھکیلا جارہا ہے ؟۔ وزیر قانون و پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجارنے ایم کیو ایم کے رکن اعجازالحق سے کہا کہ ان کا پوائنٹ ایوان میں سامنے آگیا ہے اب اپنی نشست پر بیٹھ جائیں لیکن وزیر پارلیمانی امور کی بات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور ایم کیو ایم ارکان کی جانب سے زبردست نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا ۔ایوان میں شور شرابے کے دوران وزیر ایکسائز نے بتایا کہ پراپرٹی ٹیکس کو اب محکمہ ایکسائز کی فہرست سے نکال دیا گیاہے اور یہ ٹیکس اب بلدیاتی کو نسل وصول کریں گی ۔ان کا کہنا تھا کہ 2023 سے پراپرٹی ٹیکس ضلعی کونسلوں کے زمہ دے دیا گیا ہے۔
ایوان کی کارروائی کے دوران وزیر پارلیمانی امور ضیا الحسن لنجار نے شہید بے نظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ فیڈرل ازم کا بل 2024 ایوان میں پیش کیا جسے قائم مقام اسپیکر نے مزید غور کے لئے متعلقہ مجلس قائمہ کے سبرد کردیا جو دس روز میں اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے گی ۔ ایوان نے اپنی کارروائی کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن ہیر اسماعیل سوہو کی ایک تحریک التوا جو صوبے میں موبائل فون کال کے معیار اور انٹر نیٹ سروسز کی بہتری کو یقینی بنانے سے متعلق تھی بحث کے لئے منظور کرلی ایوان میں اس تحریک پر بحث منگل کو پرائیوٹ ممبرز ڈے کے موقع پر ہوگی اور اس مقصد کے لئے ایک گھنٹے کا وقت بھی مختص کردیا گیا ہے۔
ایوان کی کارروائی کے دوران پی پی کی خاتون رکن ماروی فصیح کی عدم موجودگی کے باعث ان کی جانب سے پیش کردی ایک تحریک استحقاق پر غور نہیں ہوسکا جو انہوں نے محکمہ اسپیشل ایجوکیشن کے ڈپٹی سکریٹری طحہ فاروقی کی جانب سے ان کے ساتھ سخت اور جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر جمع کرائی تھی ۔ ایجنڈے کی تکمیل پر قائم مقام اسپیکر نے شام 4 بجے سندھ اسمبلی کااجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔
اسمبلی اجلاس کے بعد قائد حزب اختلاف علی خورشیدی اپنے ارکان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی میں پانی کی قلت، بورڈ کے امتحانات، اور دیگر مسائل پر سندھ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہاکہ اس شہر کو انہوں نے تباہ کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شبیر قریشی نے بھی میڈیا سے گفتگو میں حکومت سندھ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔