اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سامان سوبرس کا پل کی خبر نہیں۔ کراچی چمکتی بلندو بالا عمارتوں کا جنگل، لیکن مکینوں کو دو گز قبر بھی دستیاب نہیں۔ جینا تو مشکل بن گیا تھا مگر ڈھائی کروڑ شہریوں کو اب یہ فکر لاحق ہے کہ موت کے بعد تدفین کا کیا بنے گا؟
تدفین میں کتنا خرچہ آتا ہے؟
اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے مضافات میں ایک غریب آدمی کی تدفین کا خرچہ بھی چالیس ہزار سے 50 ہزار روپے تک آجاتا ہے۔ متوسط آبادی میں یہ خرچہ 65 سے 80 ہزار روپے جبکہ پوش آبادی میں یہ اخراجات ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک جا پہنچتے ہیں۔ اور اگر آپ اپنے پیارے کی کسی خاص قبرستان یا مرضی کی جگہ پر تدفین کرنا چاہتے ہیں تو ان اخراجات میں 50 ہزار سے ایک لاکھ تک کا اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور صرف قبر کے اخراجات ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک جا سکتے ہیں۔
کراچی میں 220 میں سے40 فیصد قبرستان 2040ء تک بھر جائیں گے۔ ۔سالانہ شرح اموات میں اضافے کے ساتھ ساتھ قبرستانوں میں جگہ کی قلت بحرانی شکل اختیار کر رہی ہے۔ سالانہ قبروں کے لئے تقریباً 200 ایکڑ زمین درکار ہے۔ حکومت نے ہنگامی اقدام نہیں کئے تو سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد کی تدفین انتہائی سنگین مسئلہ بن جائے گا۔ قبرستانوں میں مافیاز تدفین کے دوران من مانی رقم وصول کرتے ہیں، جو 9300 روپے سےلاکھوں روپے تک ہوتی ہے۔
قبرستانوں کی فیس!
تدفین میں سب سے بڑا خرچہ قبرستان کا ہے۔ رجسٹرڈ یا منظم قبرستانوں میں اخراجات کی رقم طے ہے، بلدیہ عظمیٰ کے قبرستانوں میں سرٹیفکیٹ فیس صرف 300 روپے ہے، گورکن اور تدفین کے اخراجات 9ہزار روپے (گورکن سرکاری نہیں ہے) بلدیہ عظمیٰ کراچی کے مطابق رجسٹرڈ سماجی تنظیموں ، اداروں ، برادریوں اور سرکاری فوجی اداروں کی فیس اور اخراجات الگ الگ ہیں ، تاہم ڈی ایچ اے کے قبرستان میں 9300 روپے ٹوٹل اخراجات ہیں۔ غیر منظم قبرستانوں میں اکثر جگہ کوئی فیس نہیں ہے اور لوگ اپنی مدد آپ تدفین اور قبر کا انتظام کرتے ہیں۔
عام طور پر شہر کے ہر قبرستان میں 5 ہزار سے 35 ہزار روپے اضافی وصول کئے جارہے ہیں اور اگر آپ کو مرضی کی جگہ چاہیے یا سرکاری طور پر بند قبرستان میں تدفین کے خواہش مند ہیں تو یہ فیس 70 ہزارروپے سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک جا پہنچتی ہے۔
قبرکے لئے بلینک چیک!
رپورٹ کی تیاری کے دوران انکشاف ہوا کہ تدفین پر پابندی والے قبرستانوں یا کسی بھی قبرستان میں من پسند جگہ تدفین کے لئے لوگ خود ہی بڑی رقم کی آفر کرتے ہیں، یہ رقم سرکاری طے اخراجات یعنی 9300 روپے سے لیکر لاکھوں روپے تک بھی ہوسکتی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سوسائٹی قبرستان میں ایک کیس ایسا بھی آیا جس میں گورکن کو بلینک چیک دیکر کہا گیا کہ اس میں رقم خود لکھ لیں اور ہمیں بس قبر کی جگہ فراہم کر دیں۔
ریٹ آویزاں !
مختلف اداروں یا شخصیات کے زیر انتظام قبرستانوں میں محدود اخراجات ہیں۔ قبرستانوں میں سرکاری یا نجی طور پر بچوں اور بڑوں کی قبر کی فیس ایک ہی ہے ۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کے قبرستانوں کے باہر سندھ اسمبلی کی ہدایت اور سرکاری ریٹ آویزاں ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت قبرستانوں کی نگرانی کے لئے عملہ بھی موجود ہوتا ہے،اسی طرح دیگر سرکاری اور نجی قبرستانوں میں بھی لوگ موجود ہوتے ہیں ، اس کے باوجود متعدد قبرستانوں بالخصوص سرکاری قبرستان مختلف مافیاز کی عملداری کی وجہ سے مجرمانہ سرگرمیوں کا مرکز بن گئے ہیں جہاں منشیات کے عادی افراد سے لے کر سماج دشمن عناصر تک سب ہی متحرک ہیں ۔
تدفین سے قبل میت کیلئے دیگراخراجات
دیگر اخراجات میں میت کو اسپتال سے گھر منتقل کرنے کا خرچہ 2000 روپے آتا ہے۔ موسم اگر گرم ہے تو برف کا خرچہ 1000 سے 1500 روپے، شامیانے، کرسی اور دیگر آئیٹم کا خرچہ 5000 سے 25000 روپے، اگرتدفدین میں تاخیر ہو تو میت کو سرد خانے منتقل کرنے کا خرچہ 2000 روپے، سرد خانے میں میت کو رکھنے کا 1000 سے 2500 روپے یومیہ خرچہ ہوتا ہے۔
کفن کا خرچہ 2500 سے 5000 روپے، غسل کے لئے چٹائی، عطر، کافور، اور دیگر لوازمات کا خرچہ 2000 سے 7500 روپے، میت کو غسل دینے والے کا خرچہ 1000 روپے، سرد خانے سے میت واپس گھر منتقل کرنے کا خرچہ 2000 روپے، میت گاڑی کا خرچہ 1500 سے 5000 روپے فی گاڑی، پھولوں کی چادر، پتیاں ، گلاب پانی ، اگربتی کا خرچہ 2000 سے 5000 روپے، میت کے شرکاء کو شربت پلانے کا خرچہ 1000 سے 2000 روپے اور بریانی کی فی دیگ کا خرچہ 10000 سے 16000 ہزار روپے تک ہوتا ہے۔
اور ابھی رکیے کیونکہ معاملے یہیں ختم نہیں ہوتا اگر آپ کے گھرانے میں سوئم، دسواں، چہلم اور برسی کی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں تو پھر ہر پروگرام کا علیحدہ سے خرچہ 20000 سے 50000 روپے تک بھی ان اخراجات میں شامل کرلیں۔ تدفین کے لازمی اور سماجی رسومات پر آنے والے یکمشت اخراجات عام آدمی کے لئے آسان نہیں رہا ہے جبکہ معمولی تنخواہ دار اور غریب لواحقین کو یہ عمل مقروض تک بنا دیتے ہیں۔
کراچی کا چیلنج !
کراچی آبادی میں اضافے کی وجہ سے پہلے ہی بنیادی سنگین مسائل سے دوچار تھا اور اب آخری آرام گاہ کی جگہ بھی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے ۔ شہر یوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گورکن تدفین کے لئے منہ مانگی رقم کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان قبرستانوں میں پرانی قبروں کو منہدم کرکے نئی قبریں بنانے کی شکایات بھی عام ہیں۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کے اجلاس میں 26 نومبر 2024ء کوکمیٹی رکن خرم سومرو نے انکشاف کیا کہ کراچی کے قبرستانوں میں کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین گورکن بن کر فی قبر 40 ہزار روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔
کراچی میں قبرستانوں کی تعداد!
مختلف ذرائع سے حاصل اعدادوشمار کے مطابق کراچی میں مجموعی طور پر چھوٹے بڑے تقریباً 220 قبرستان ہیں ، 192 الاٹ شدہ قبرستان ہیں، جن میں سے 173 مسلم اور 19 قبرستان غیر مسلموں کے ہیں ۔ غیر مسلموں میں سے 12 عیسائی قبرستان اور 5 ہندو شمشان گھاٹ ہیں۔ الاٹ شدہ قبرستانوں میں سے 46 بلدیہ عظمی کے زیر انتظام ، 20 قبرستان ڈیفینس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)، مختلف کنٹونمنٹس اور سرکاری اداروں کے زیر انتظا م ، 112 قبرستان مختلف سماجی تنظیموں ، برادریوں اور نجی اداروں کے تحت (99 مسلم اور 13 غیر مسلم )ہیں اورتقریبا 14 قبرستان مختلف اداروں یا شخصیات کے زیر انتظام ہیں ۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں غیر رجسٹرڈ اورغیرمنظم قبرستان بھی 30 کے قریب ہیں۔
قبرستانوں پرعدم توجہی!
سینئر ڈائریکٹراطلاعات ، طباعت ومیڈیا مینجمنٹ علی حسن ساجد کے مطابق قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی کم و بیش تین لاکھ تھی جو بڑھتے بڑھتے ڈھائی کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے اور ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے اسے اپنی رہائش گاہ یا مدفون عزیزو اقارب کے قریب ہی تدفین کی سہولت میسر ہو تاکہ اس کے لواحقین قبر کی دیکھ بھال کرسکیں اور فاتحہ خوانی کے لئے قبرستان آسکیں۔ کراچی کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس تیزی کے ساتھ بنیادی سہولیات میسر نہیں آسکیں، ماضی میں قبرستانوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ،جس کی وجہ سے قبرستانوں کی جگہ کی کمی کے ساتھ ساتھ قبرستانوں کی حالت بھی تسلی بخش نہیں رہی۔
منی پاکستان !
پاکستان کا معاشی حب کراچی، ملک کا پہلا دارالحکومت ،منی پاکستان اور گنجان ترین شہر ہے ۔۔ جہاں ملک کے چاروں صوبوں ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کا شاید ہی کوئی ایسا ڈویژن، ضلع، تحصیل ،تعلقہ یا سب ڈویژن ایسا ہو جس کے باسی کراچی میں آباد نہ ہوں۔
کراچی کی آبادی!
پہلی ڈیجیٹل اورساتویں مردم شماری 2023ء کے سرکاری نتائج کے مطابق کراچی ڈویژن کی آبادی 2 کروڑ 3 لاکھ 82 ہزار 881 افراد ہے اور آبادی میں شرح اضافہ 4.10 فیصد ہے۔ جبکہ کراچی کے حکومتی ، سماجی اور سیاسی اسٹیک ہولڈرزکے دعوے کے مطابق شہر کی آبادی 2 کروڑ 50 لاکھ سے 3 کروڑ 50 لاکھ تک ہے، تاہم غیر جانبدار مبصرین اور ماہرین کا کہنا ہے کہ 2024ء میں کراچی کی آبادی لگ بھگ 2 کروڑ 30 لاکھ ہے
شرح اموات!
ادارہ شماریات کے مطابق 2020ء میں پاکستان کی میں پیدائش کی شرح فی ہزار 27 بچے اور اموات کی شرح 6.7 افراد تھی، جبکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2021ء میں پاکستان میں اموات کی شرح فی ہزار 7.2 افراد ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ کراچی میں سالانہ اموات کی تعداد ایک لاکھ 50 ہزار سے پونے دو لاکھ تک ہے۔شہری منصوبہ بندی کے ماہر ڈاکٹر محمد توحید کا کہنا ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) ، یونین کونسل ، ہسپتالوں اور قبرستانوں میں منظم و مربوط رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شرح اموات کا درست تعین انتہائی مشکل ہے ۔ کراچی کے بارے میں دعویٰ ہے کہ یہاں کا شرح اموات دیگر پاکستان سے زیادہ ہے۔
مختلف مذاہب کے قبرستان!
کراچی میٹرو پولٹن کارپوریشن (کے ایم سی ) کے سینئر ڈائریکٹراطلاعات علی حسن ساجد کے مطابق کراچی میں ابتدا سے ہی مسلمان، ہندو، عیسائی اور پارسیوں کے قبرستان موجود ہیں ، مختصر تعداد میں یہودی بھی یہاں آباد تھے۔
قبرستانوں کی جگہ پر قبضے!
حکومت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی نے مواچھ گوٹھ کے لوفلائی زون (نچلی پرواز) یا غیر تعمیراتی علاقے میں سماجی تنظیموں ، برادریوں ، اداروں کو قبرستانوں کی جگہ الاٹ کی ہے ۔ متعدد اسٹیک ہولڈرز کا دعویٰ ہے کہ متعلقہ ادارے انکو زمین فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ قبرستانوں کی زمین پر قبضہ ہے جہاں پلاٹ کی کٹنگ بھی ہورہی ہے۔ شہر کے مختلف قبرستانوں کے قرب و جوار میں بھی اسی طرح کی شکایات مل رہی ہیں۔ کے ایم سی کے ڈئریکٹر علی حسن ساجد کے مطابق کے ایم سی نے متعدد بار شہر کے مختلف علاقوں میں مافیاز کے خلاف کارروائی کی ، لیکن یہ دوبارہ منظم ہو کر پھر سے اپنی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں۔
سیل قبرستان!
بلدیہ عظمیٰ کراچی نے تدفین کی جگہ ختم ہونے کے باعث پرانی قبروں کو منہدم کرکے نئی قبریں بنانے کی شکایات کے بعد شہر کے 6 بڑے قبرستانوں سوسائٹی قبرستان طارق روڑ، ماڈل کالونی قبرستان ملیر، پاپوش نگر قبرستان ناظم آباد، کورنگی نمبر 6قبرستان ، یاسین آباد قبرستان اور عظیم پورہ قبرستان شاہ فیصل کالونی میں تدفین پر پابندی عائد کردی ہے ۔
ہنگامی اقدام!
کراچی کے بیشتر بالخصوص مرکزی علقوں میں واقع قبرستانوں میں جگہ تقریباً ختم ہو چکی ہے جسکے باعث تدفین کے لئے جگہ نہ ملنے کی شکایات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مئیر کراچی بیریسٹر مرتضیٰ وہاب صدیقی کے مطابق صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بلدیہ عظمیٰ نے شہر میں 3 نئے قبرستان بنائے ہیں جن میں بلدیہ ٹائون قبرستان ، ناردرن بائی پاس قبرستان اور لنک روڈ قبرستان(سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے کے درمیان) شامل ہیں ۔ بلدیہ عظمیٰ کے اقدامات قابل ستائش مگر ناکافی ہیں، موجودہ حالت میں ضروری ہے کہ مقامی لوگوں اور حکام کے تعاون سے قبرستانوں کی زمینوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے اور پرانی قبروں کو مہندم کرکے نئی قبر بنانے کے عمل کی سخت گرفت کی جائے۔ سنیئر صحافی محمد منیر الدین کا کہنا ہےکہ بڑھتی ہوئی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر کراچی کے 25 ٹائونز قبرستانوں کے لئے جگہ کا انتظام کریں ، ورنہ 2040ء تک ہم شدید بحران سے دوچار ہونگے۔
نوٹ:
ٹائمز آف کراچی نے کراچی کے مختلف علاقوں میں قبرستانوں، پھولوں، کفن اور دیگر لوازمات کی دکانوں، پکوان سینٹر کے سروے، مقامی افراد سے گفتگو اور ایدھی اور چھیپا سرد خانے سے براہ راست رابطے کے بعد حاصل ہونے والی معلومات کو اپنےناظرین کے لئے خصوصی طور پر مرتب کیا ہے۔