روشنیوں کا شہر کراچی، شہر بے امان میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے
جہاں کسی بھی شہری کی جان اور مال کی ضمانت نہیں
شہری گھر کی دہلیز پر بھی غیر محفوظ ہو کر رہ گئے
آئے روز اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں گھروں کے چراغ گل ہونے کے باوجود
زمہ داراں صورتحال میں بہتری کا راگ الاپتے نظر آرہے ہیں
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے اسمبلی میں رپورٹ پیش کر تے ہوئے شہر میں جرائم میں کمی کا دعوی کیااور پھر آئی جی سندھ نے بھی میڈیا سے گفتگو کے دوران اسی دعوے کو دہرایا
مگر حقائق اصل میں ہیں کیا یہ جاننے کے لئے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں
سی پی ایل سی کی جاری کردہ وارداتوں کے اعداد و شمار کے مطابق
اکتوبر میں 38 افراد قتل کر دئے گئے جبکہ ستمبر میں یہ تعداد 36 تھی
اکتوبر میں بھتے کے 12 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ ستمبر میں اسکی تعداد 5 تھی
اکتوبر اور ستمبر دونوں مہنیوں میں اغوا برائے تاوان کے دو دو واقعات رپورٹ ہوئے
اکتوبر کے مہینے میں موٹر سائیکل چھیننے کے 674 واقعات رپورٹ ہو ئے جبکہ ستمبر میں یہ تعداد 621 تھی
اسی طرح ماہ اکتوبر میں کار چوری کے 165 واقعات درج کئے گئے جبکہ ستمبر میں یہ تعداد 159 تھی
یعنی ہر کیٹیگری میں گذشتہ ماہ کے مقابلے میں اضافہ ہی ریکارڈ ہوا ہے
پھر نہ جانے وزیر داخلہ اور آئی سندھ کس منہ سے کمی کی بات کر رہے ہیں
ہاں اس ڈیٹا کے مطابق موبائل فون ، کار چھیننے کے واقعات اور موٹر سائیکل چوری کی واردات میں بہت معمولی کمی ضرور ہوئی ہے
مگر یہ کمی قابل زکر نہیں
اگر سال رواں کے ابتدائی دس ماہ کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو سی پی ایل سی کی رپورٹ کےمطابق
یکم جنوری سے 31 اکتوبر تک شہر قائد میں 62 ہزارسے زائد اسٹریٹ کرائم کیس رپورٹ ہوئے
ان دس ماہ میں 16 ہزار 777 شہری اپنےموبائل فون جبکہ 39 ہزارسے زائد شہری موٹرسائیکلوں اور ایک ہزار 4 سو 89 شہری اپنی کار سے محروم ہوئے
دس مہنیوں کے دوران اغواء برائے تاوان کے 19 کیسز جبکہ بھتہ خوری کے 80 واقعات رپورٹ کیے گئے
دس ماہ کےدوران 105 شہری ڈکیتی مزاحمت پرقتل کر دئے گئے جبکہ دیگر مختلف واقعات میں 478 شہری اپنی جانوں سے گئے،،اس عرصے میں 11 پولیس اہلکاروں نے بھی جام شہادت نوش کیا
سندھ پولیس کی آفیشل ویب سائیٹ پر جاری رپورٹ بھی اعلی حکام کے دعووں کی نفی کرتے نظر آرہی ہے
سندھ پولیس کی رپورٹ کے مطابق 2024 کے ابتدائی نو ماہ کے دوران مجموعی طور پر جرائم کی تعداد بڑھی ہے ، یہ تعداد گذشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں 761 ذیادہ ہے جبکہ صوبے بھر میں بھی جرائم کی مجموعی تعداد میں گذشتہ برس کے نو ماہ کے مقابلےمیں 4ہزار 510 واقعات کا اضافہ ہوا ہے۔
ان اعداد و شمار کے باوجود اعلی حکام کے دعوے سمجھ سے بالا تر ہیں
اب زرا ان رپورٹس کی حقیقت بھی جان لیجئے
سال رواں کے ابتدائی نو ماہ کے سندھ پولیس اور سی پی ایل سی کے اعداد و شمار میں بھی واضع فرق ہے
سی پی ایل سی کے مطابق نو ماہ میں وارداتوں کی کل تعداد 56 ہزار 572 سے ذائد ہے جبکہ سندھ پولیس کی رپورٹ کےمطابق یہ تعداد 47ہزار584 ہے
یعنی دونوں سرکاری محکموں کی رپورٹ میں 8 ہزار 588 وارداتوں کا فرق ہے۔
یہی نہیں اس سے قبل روزنامہ جنگ نے سال 2022 کے ابتدائی نو ماہ کے دوران ان دو سرکاری محکموں کے اعداد و شمار میں 50 ہزار وارداتوں کے فرق کا انکشاف کیا تھا
اور یہ فرق اس حقیقت کے علاوہ ہے کہ شہریوں کی ایک کثیر تعداد پولیس تفتیش اور لاحاصل انکوائری کی جھنجٹ سے بچنے کے لئے موبائل فون ، رقم چھینے جانے کے واقعات یا گاڑیوں سے قیمتی اشیاء اور پارٹس کی چوری کے واردات پولیس میں رپورٹ کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں، اگر ان واقعات کو بھی شمار کر لیا جائے تو پھر حکام کے دعوے سراسرآنکھوں میں دھول جھوکنے کی کوشش کے سوا اور کچھ بھی نہیں