کزن میرج ایک سماجی طرز عمل ہے جس پر دنیا اور طبی ماہرین دونوں منقسم نظر آتے ہیں، کزن میرج یعنی چچا زاد، ماموں ذاد، پھوپھی ذاد یا خالہ ذاد سے شادی، جسکا رواج پوری دنیا میں عام ہے خاص طور پر مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ممالک میں۔
بی بی سی کی ایک رورٹ کے مطابق دنیا کے تقریباً 10 فیصد خاندان ایسے جوڑوں پر مشتمل ہیں جو کزن پر مشتمل ہیں ، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ کے کچھ حصوں اور ایشیا میں کزن میرج کی سرکاری طور پراجازت ہے۔لیکن امریکہ میں معاملہ کچھ مختلف نوعیت کا ہے۔ بعض امریکی ریاست میں بلا روک ٹوک مکمل اجازت ہے اور بعض ریاستوں میں مکمل پابندی، جبکہ چند ریاستوں میں مشروط طور پر کزن میرج کی اجازت دی گئی ہے۔
بی بی سی کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک کی جینیاتی ماہر وینڈی چنگ کے مطابق بچے کی پیدائش کے وقت عام جوڑے میں بنیادی قسم کے مسائل میں سے کسی ایک کے منتقل ہونے کا خطرہ تین اور چار فیصد کے درمیان ہوتا ہےجبکہ کچھ فرسٹ کزنز میں یہ خطرہ دوگنا ہوتا ہے۔عام طور پر کزنز کے درمیان شادی کافی محفوظ ہوتی ہے لیکن بعض مخصوص آبادیوں یا خاندانوں میں زیادہ خطرات ہو سکتے ہیں۔انکے مطابق یہ جینیاتی حالات پر منحصر ہے۔
کراچی کے ڈاؤ ہسپتال میں جینیاتی بیماریوں اورکزن میریجز پر منعقدہ ورکشاپ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد سعید قریشی نے کہا کہ پاکستان میں کزن میریجز کی عام شرح 65 فیصد ہے، جب کہ بعض قبائل میں یہ شرح 85 فیصد تک بھی ہے۔ان کے نذدیک ایک ہی خاندان کے دو افراد میں شادیاں اگلی نسل میں مختلف جینیاتی بیماریاں بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں
آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر امبرین فاطمہ کے مطابق کزن میریجز کی وجہ سے پاکستان میں اگلی نسل میں تھیلیسمیا ہونے کے امکانات 6 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر امبرین فاطمہ کا کہنا تھا کہ متعدد جینیاتی بیماریاں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں جنہیں کزن میریجز کے خاتمے سے روکا جا سکتا ہے۔