پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں گذشتہ کچھ ماہ سے مسلسل تیزی کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر 28 اکتوبر 2024 اسٹاک مارکیٹ کی تاریخ کا گولڈن ڈے تھا جب مارکیٹ میں کے ایس ای ہنڈریڈ انڈیکس ایک لاکھ کی سطح عبور کر کے ایک نئی تاریخ بھی رقم کر دی ہے۔ حکمران اسے اپنی بہتر معاشی پالیسی اور اپوزیشن اس تیزی کو وقتی اور مصنوعی قرار دے رہے ہیں
بیانات سے قطع نظر اسٹاک مارکیٹ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال جاننے کے لئے ایک اہم انڈیکیٹر کے طور پر جانا جاتا ہے اور دیگرعوامل کے ساتھ ساتھ اسکی بنیاد پر ملکی اور غیر ملکی تاجر کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر تے ہیں۔ اور موجود اعشاریے بتا رہے ہیں پاکستان کی معیشت کے حالت اتنے برے نہیں جتنا لوگ اسے سمجھتے ہیں۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہو گیا کہ معیشت کی ڈولتی ہوئی کشتی اور ملک کے ڈیفالٹ کی خبروں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ پر ریکارڈ بنا رہا ہے اور مارکیٹ صرف سترہ ماہ میں 40 ہزار سے ایک لاکھ کی نفسیاتی حد کو عبور کر گئی، یہی نہیں بلکہ اس عرصے میں سرمایہ کاروں کے منافے کی شرح ڈیڑھ سو فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسکی کئی وجوہات ہیں جس میں مہنگائی اور شرح سود میں کمی ، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور ایکسپورٹ کا بڑھنا ہے۔اسکے علاوہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیاں ، تجارتی خسارے میں کمی اور ٹیکس کلکشن ذیادہ ہونا ہے ۔ ایک اور بڑی وجہ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگرام میں واپسی بھی ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق ملک میں مہنگائی کم ہونے کے بعد شرح سود میں کمی آئی ہے جسکے بعد لوگوں نے بینکوں سے پیسے نکال کر اسٹاک مارکیٹ میں انوسمنٹ شروع کردی ہے۔ پاکستانی روپے میں بڑی حد تک استحکام نے بھی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا ہے۔
اورسب سے اہم بات یہ کہ سرمایہ کاروں نے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باوجود ملک میں کوئی بڑی سیاسی تبدیلی کا امکان نہیں اور موجود سرکار ہی اپنا اقتدار جاری رکھے گی۔
مگر ان سب باتوں کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر سب کچھ اچھا ہے تو غربت میں کمی اور ملازمت کےمواقع کیوں نہیں پیدا ہو رہے اور عام آدمی کی زندگی میں بدلاو کیوں نہیں آرہا۔ تو جناب اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کی کل تعداد ملکی آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں۔ اسلئے اس تیزی اور ریکارڈ منافع کا بھی صرف چند لاکھ افراد کو ہی فائدہ ہو تا ہے یعنی اسٹاک مارکیٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی چند خاندانوں اور محدود افراد کے گرد ہی گھومتی ہے اس لئے اسکا عام آدمی پر فرق نہیں پڑتا۔
معاشی ماہرین کے مطابق سیاسی استحکام، مقامی معیشت کی بہتری اور اسکے نتیجے میں ایکسپورٹ میں اضافہ ، تجارتی خسارے میں کمی ، زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں اضافہ اور حکومتی اخراجات میں کمی پاکستان کی اقتصادی مشکلات کو کم کرسکتی ہے۔ اور یہی کامیابیاں عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے