پبلک اکاؤنٹس کمیٹی!
سندھ کے وفاقی حکومت کے اداروں پر پانی کے بلوں کی مد میں واٹر بورڈ کے 20 ارب روپے سے زائد کی واجبات ہونے کا انکشاف۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سندھ کے پانی کے بلوں کی مد میں واٹر بورڈ کے وفاقی حکومت کےاداروں اسٹیل ملز،، پورٹ قاسم اتھارٹی، پاکستان ریلوے۔ پی ایس او،سوئی سدرن گئس کمپنی، کنٹونمنٹ بورڈز سمیت دیگر اداروں پر 20 ارب سے زائد کی واجبات وصول نہ ہونے کا نوٹس لے لیا ہے۔ پی اے سی نے واٹر بورڈ کی پانی کے بلوں کی مد میں وفاقی اداروں پر 20 ارب سے زائد کی واجبات کی وصولی کے لئے معاملہ وفاقی حکومت کے ساتھ ٹیک اپ کرنے اور وفاقی حکومت کے متعلقہ اداروں کو خط لکھنے کی ہدایت کردی ہے۔
اجلاس!
بدھ (27 نومبر) کو سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی صدارت میں کمیٹی روم میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے رکن قاسم سراج سومرو، واٹر بورڈ کے سی ای او صلاح الدین احمد۔انجنیئر اسدللہ سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی سال 2019ء سے سال 2021ء تک آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔
20 ارب روے کے واجبات!
اجلاس میں ایک آڈٹ پیرا میں اس بات کا انکشاف سامنے آیا کے سندھ کے وفاقی حکومت کے اداروں پر پانی کے بلوں کی مد میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے 20 ارب روپے سے زائد کی واجبات ہیں جو مختلف وفاقی ادارے 2016 ع سے واٹر بورڈ کو ادا نہیں کر رہے ہیں اور پاکستان اسٹیل مل پر واٹر بورڈ کے گذشتہ دس سالوں سے 10 ارب روپے سے زائد کے واجبات ہیں۔ واجبات ادا نہ کرنے والے دیگر وفاقی حکومت کے اداروں میں کے پی ٹی، سوئی سدرن گئس ،پی ایس او،پاکستام ریلوے،پرنٹنگ کارپوریشن، میرین فشریز، کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن، کراچی شپ یارڈ، کنٹونمنٹ بورڈز، نیشنپ شپنگ پی آئی اے،پورٹ قاسم اتھارٹی،پاکستان میشن ٹول فیکٹری، کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن سمیت دیگر وفاقی حکومت کے ادارے شامل ہیں۔
واٹربورڈ!
واٹر بورڈ کے سی ای او صلاح الدیں احمد نے پی اے سی کو بتایا کے 2016ع سے پاکستان اسٹیل پر واٹر بورڈ کے 10 ارب روپے سے زائد کے پانی کے بلوں کی مد میں واجبات ہیں جو وفاقی حکومت ادا نہیں کر رہی ہے۔ اسٹیل ملز واٹر بورڈ کے پانی سے اس وقت 88 صنعتوں کو کمرشل بنیادوں ہر پانی فراہمی کر رہی تھی مگر واٹر بورڈ کے واجبات نہیں دئے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کے دیگر اداروں پر بھی واجبات ہیں جو ٹوٹل واجبات 20 ارب سے زائد کے ہیں۔واٹر بورڈ حکام نے پی اے سی کو گذارش ہے کے یہ معاملہ وفاقی اداروں سے ٹیک اپ کرکے واٹر بورڈ کو واجبات دلائی جائیں۔
پی اے سی چیئرمین نثار کھوڑو نے کہا کے سندھ کو وفاق سے اربوں رپیوں کی واجبات کی وصولی چاہئے او واٹر بورڈ کے ادارے کو وفاقی حکومت کے اداروں کو پانی کی سھولت فراہم کرنے کے باوجود واجبات کی ادائگی سے محروم رکھنا سندھ کے ساتھ زیادتی ہے اور سندھ حکومت واٹربورڈ کی وفاقی حکومت کے اداروں پر 20 ارب روہے سے زائد کی واجبات کی وصولی کا معاملہ وفاقی حکومت کے ساتھ ٹیک اپ کرے گی۔کمیٹی کے رکن قاسم سومرو نے کہا کے سندھ کو وفاق سے واجبات ملنی چاہئے۔پی اے سی نے واٹر بورڈ کی پانی کے بلوں کی مد میں وفاقی اداروں پر 20 ارب سے زائد کی واجبات کی وصولی کے لئے معاملہ وفاقی حکومت کے ساتھ ٹیک اپ کرنے اور وفاقی حکومت کے متعلقہ اداروں کو خط لکھنے کی ہدایت کردی ہے۔
کےفور منصوبہ!
اجلاس میں پی اے سی چیئرمین نثار کھوڑو نے واٹر بورڈ حکام سے استفسار کیا کے کے فور منصوبہ کب مکمل ہوگا اور کراچی کے گھر گھر میں لائنوں سے عوام کو پانی کی فراہمی کب تک شروع ہوگی اور کب تک عوام ٹینکرز کے ذریعے پانی خرید کر استعمال کرتے رہینگے۔ ہم چاہتے ہیں کے کراچی کے ہر گھر میں لائن سے پانی میسر ہو۔ سی ای او واٹر بورڈ صلاح الدین احمد نے پی اے سی کو بتایا کے کے فور کا منصوبہ دسمبر 2025ء تک مکمل ہوگا جس کے لئے واپڈا نے وفاق سے رواں سال 80 ارب روہے مانگے ہیں جبکے کے فور منصوبے کی کیپیسٹی 260 ایم جی ڈی کی ہے جبکے کراچی کو 600ایم جی ڈی پانی کی ضرورت ہے اور واٹر بورڈ کے پاس جتنا پانی ہوگا اسی حساب سے شھر میں پانی کی فراہمی کی جاسکتی ہے۔
ھائیڈرنٹس!
سی ای او واٹر بورڈ نے کہا کے اگر حب کینال میں پانی کی گنجائش بڑھائی جائے تو پہر کراچی شھر میں پانی کی فراہمی کی صورتحال مزید بھتر ہوگی اس وقت کراچی کو 50فیصد پانی کی کمی کا سامنہ ہے۔واٹر بورڈ 2050ء تک کا ماسٹر پلان بنا رہا ہے جس کے 18ٹی او آرز ہیں۔سی ای او واٹر بورڈ نے پی اے سی کوبریفنگ دیتے ہوئے بتایا کے شھر کراچی میں 243 غیر قانونی ھائیڈرنٹس کو توڑا گیا ہے اور واٹر بورڈ کے 5500 ٹینکرز ہیں جو شھر کے مختلف علاقوں میں سرکاری ریٹ پر پانی فراہمی کرتے ہیں۔ شھر کراچی میں واٹر بورڈ کے 10 لاکھ صارفین ہیں جن کو واٹر بورڈ کے بل جاری ہوتے ہیں اور بلز کی وصولی 35 فیصد ہے اور صارفین سے بقایاجاے کی وصولی کے لئے پیکیج متعارف کیا گیا ہے تاہم واٹر بورڈ کی بقاجات ادا نہ کرنے والوں کی پانی کی لائن میٹرز نہ ہونے کہ وجہ سے نہیں کاٹ سکتے۔
ملازمین!
سی ای او واٹر بورڈ نے مزید کہا کے واٹر بورڈ کے 9350ملازمین ہیں جن مین سے 8700 بایو میٹرک پر ہیں جبکے کے فور میں پانی واپڈا نے رزروز میں چھوڑنا ہے اور کے فور کی پانی جمع کرنے کی گنجائش صرف ایک دن کی ہے۔ کراچی کی صنعتوں ہپر بھی واٹر بورڈ کے واجبات ہیں اور انڈسٹریل زونز میں 8500 صنعتیں ہیں جن میں سے 5 ہزار صنعتوں میں واٹر بلک۔میٹر نصب کرنے جا رہے ہیں جس کے لئے ورلڈ بئنک سے 15 ملین ڈالرز کی ادائگی کا معاھدہ کیا گیا ہے۔ سی ای او واٹر بورڈ نے کہا کے دوسرے مرحلے میں ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصے میں باقی مقامات پر بھی واٹر میٹرز نصب ہونگے جس کے بعد پانی کی تقسیم پر کسی کو اعتراض نہیں رہے گا۔