ایک عہد تمام ہوا ، جسٹس قاضی فائز عیسی کی زندگی اوران کے اہم فیصلے

پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس اور اپنےدلیرانہ فیصلوں کے باعث نڈر جج کے طور پر اپنی شناخت رکھنے والے جسٹس قاضی فائزعیسی  ریٹائر ہو گئے۔

بحیثیت چیف جسٹس اور اس سے قبل ایک جج کے طور پر انکے کئی فیصلے شہہ شرخیوں کی زینت بنتے رہے ہیں، کئی فیصلے تناعات کا بھی شکار ہوئے۔ ہائی کورٹ میں تعیناتی سے لے کر سپریم کورٹ تک انہیں کئی بار وکلاء برادری اور اداروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

بحیثیت چیف جسٹس اور جج قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں میں سے کچھ اہم فیصلوں پراس ایک نظر ڈالتے ہیں۔

بائیس اکتوبر 2024 کو سپریم کورٹ کے دو ججز نے اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی فیصلے اور اضافی نوٹ میں لکھا کہ امید ہے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے اپنی غلطیوں کا تدارک کریں گے۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ فیصلے میں آئینی خلاف ورزیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میرا فرض ہے، امید کرتا ہوں کہ بردار ججز یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کا نظام آئین کے تحت چلے،

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جنوری 2024 میں انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلہ بھی اہم فیصلوں میں سے ایک ہے ۔ عدالت نے تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا الاٹ  کرنے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کےفیصلے کو کلعدم قرار دیا تھا ، کیس میں عدالت نے الیکشن کمیشن کا اقدام درست قرار دیا تھا۔

اسی فیصلے کے خلاف 21 اکتوبر 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے نظر ثانی کی اپیل بھی خارج کر دی تھی۔

سال 2024 میں ہی مبارک ثانی کیس میں چیف جسٹس کا فیصلہ تنازعات کا شکار ہوا، فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا سمیت دیگر پلیٹ فارم پر منظم تحریک چلائی گئی جس میں چیف جسٹس کو براہ راست تنقیدکا نشانہ بنایا گیا۔ بعد ازاں اس فیصلے کے متنازع پیرا گراف کو ہذف کر دیا گیا۔

بطور جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے اہم فیصلے

اس سے قبل 2019 میں بطور سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا، جس کے بعد ان کے خلاف صدر عارف علوی نے صدارتی ریفرنس بھیجا۔ تاریخ میں پہلی بار حاضر سروس جج نے اپنے ساتھی ججز کے سامنے کھلی عدالت میں ریفرنس کا دفاع کیا اور ریفرنس خارج ہوگیا۔

رونامہ جنگ کے مطابق بطور جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میموگیٹ کمیشن، سانحہ کوئٹہ انکوئری کمیشن، آرٹیکل 184 تھری کی تجدید سمیت کئی اہم فیصلے دیے ۔انہوں نے 21ویں آئینی ترمیم کیس میں اقلیتی رائے میں فوجی عدالتوں کی مخالفت بھی کی۔

 جیو نیوز کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2021ء میں پی ٹی آئی دور حکومت میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ازخود نوٹس لیا تو اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد نے انہیں چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی حکومت کے خلاف مقدمات سننے سے روک دیا۔

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سینئر جج ہونے کے باوجود کسی آئینی مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری خرچ پرالوداعی عشائیہ لینے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ الوداعی ڈنر پر دو ملین سے زیادہ کا خرچ آتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی زندگی پر ایک نظر

قاضی فائز عیسٰی 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔اُن کا تعلق پشین کے ایک ممتار خاندان سے ہے۔ انکے والد قاضی محمد عیسٰی تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما تھے جبکہ داداقاضی جلال الدین آزادی سے قبل ریاست قلات کے وزیر اعظم تھے ۔اُن کی والدہ بیگم سعدیہ عیسٰی ایک سماجی کارکن تھیں جوکئی اسپتالوں اور فلاحی اداروں کے بورڈ آف گورنرز کی رُکن تھیں۔

چیف جسٹس عیسٰی نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کوئٹہ میں حاصل کی، او لیول اور اے لیول کراچی سے کیا انہوں نے قانون کی تعلیم لندن سے حاصل کی اور پھر وطن واپس آکر وکالت کا آغاز کیا اور 27 برس تک عدالتوں میں بطور وکیل پیش ہوتے رہے۔ کئی اہم کیسوں میں عدالت کے معاون کے چیثیت سے بھی کام کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی5 اگست 2009 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے  جبکہ 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان 17 ستمبر 2023 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

Spread the love
جواب دیں
Related Posts