قوموں کی ترقی میں ہمیشہ تعلیم و تربیت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ اسی لئے مہذب قومیں سب سے زیادہ توجہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر دیتی ہیں ۔ جن قوموں نے تعلیم و تربیت کو فوقیت دی وہ ہمیشہ امر ہوئی ہیں اور جنہوں نے تعلیم و تربیت کو پس پشت ڈال دیا یا ثانوی حیثیت دی تاریخ میں انکا ذکر خیر کم ہی ملتا ہے۔ تعلیم و تربیت میں استاد کا کردار انتہائی اہم ہے اسی لئے اساتذہ کو قوم معمار قرار دیا جاتا ہے، مہذب قومیں اور افراد اپنے اساتذہ کو قومی ہیرو کا درجہ دیتے ہیں اور جو اساتذہ قومی فریضے کو بھوج تصور یا وقت گزاری کرتے ہیں تاریخ میں ایسے اساتذہ کاذکر خیر کم ہی ملتا ہے۔ معاشرے کے نمایاں افراد کی سوانحیات پر غور کریں تو انکی کردار سازی اور علم و فن میں اساتذہ کا ذکر خیر اولین کلمات میں ہی ملے گا۔
گلگت بلتستان 28 ہزار مربہ میل پر پھیلا ہوا پہاڑی عبوری انتظامی یونٹ ہے ، جس کے 3 ڈویژن اور 10 اضلاع ہیں ۔ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق خطے کی آبادی 17 لاکھ 8 ہزار 706 افراد ہے، جن میں سے 14 لاکھ 20 ہزار 698 دیہی (83 فیصد) اور 2 لاکھ 88 ہزار 13 افراد شہری ( 17 فیصد ) ہے اور تقریباً نصف آبادی تعلیمی مراحل سے گزر رہی ہے ۔دیہی علاقوں میں ایک بڑا حصہ بنیادی تعلیمی ضروری سہولیات سے تقریباً محروم ہے، اس میں کچھ مسائل وسائل کی کمی اور کچھ افراد کی ٖغفلت کی وجہ سے ہیں۔ علاقے کےبڑے حصے کے تعلیمی اداروں میں جدید تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور بیشتر مکینوں کی مالی پوزیشن بھی اتنی مستحکم نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو دور دراز علاقوں میں بھیج کر انکی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں ۔ پوری دنیا میں تعلیم اور صحت پر حکومت وقت کی توجہ سب سے زیادہ ہے ، مگر بد قسمتی سے بعض مقامات بالخصوص برصغیر کے شہری علاقوں میں اب یہ دونوں شعبے کاروباری شکل اختیار کرگئے ہیں، جہاں جہاں تعلیم اور صحت کے شعبے میں تجارت کا عنصر شامل ہواوہاں تعلیم و صحت تباہ ہوئی ہے، تاہم دیہی علاقوں میں آج بھی کچھ حدتک اخلاقی قدریں موجود ہیں۔
گلگت بلتستان بھی ان علاقوں میں شامل ہے جہاں ابھی تک شعبہ تعلیم منظم کاروبار کی شکل نہیں اختیار کرگیا ہے اور بیشتر لوگو ں کا انحصار سرکاری تعلیمی اداروں پر ہی ہے ، لوگوں کو بھی اس کا ادراک ہے۔ چند برس قبل تک ان علاقوں میں نہ صرف شرح تعلیم میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا تھا، بلکہ معیار تعلیم بھی شہروں کے سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں بہت بہتر رہا ہے اور یہ بھی مقامی اساتذہ کی ذاتی دلچسپی اور لوگوں کے تعاون سے ممکن ہوا، تاہم حالیہ کچھ برسوں سے گلگت بلتستان میں بھی معیار تعلیم اور نتائج پر سنجیدہ اور قابل غور سوال اٹھے ہیں ، حالانکہ سہولیات اور افرادی قوت ماضی کے مقابلے میں بدرجہ ہا بہتر ہے۔
صورتحال کی سنگینی نے ہر سنجیدہ فرد اور ادارے کو پریشان کردیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اچانک اتنی تیزی سے گراوٹ کا سلسلہ کیوں اور کیسے شروع ہوا ؟ یقیناً اس کے بہت سے اسباب ہونگے ، لیکن چند اسباب میں محکمہ تعلیم میں میرٹ کے بجائے اقرباء پروری ، تعلق ، فوائد اور فرض کی ادائیگی کے جذبے کے بجائے خواہشات کی تکمیل کے لئے کوشاں ہونا شامل ہے۔ جب تعیناتی ،تقرری اور ترقی میرٹ پر نہیں ہوگی تو پھر خرابی پیدا ہونا لازمی ہے ۔ ایک چھوٹی خرابی کا فوری تدارک نہ کیا جائے تو ایک دن وہ وبا کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ محکمہ تعلیم میں حالیہ دنوں یہ انکشاف ہوا ہے کہ درجنوں اساتذہ کرام نے اسکول کے بجائے دفتری زمہ داریوں کے لئے اپنے آپ کو وقف کرلیا یا ان سے دفتری کام لیا جارہا ہے، حالانکہ انکی تقرری بطور استاد ہے ۔ ممکن ہے کہ کئی احباب کی صلاحیتوں کی بنیاد پر ادارے نے انکا انتخاب کیا ہو، مگر جب یہ تعداد بہت زیادہ ہو تو پھر شک و شبے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دعویٰ ہے کہ چند ماہ قبل چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا اور سیکریٹری ایجوکیشن اختر حسین رضوی نے اس عمل کی تحقیق کی ہدایت کی اور انکشاف ہوا کہ گریڈ 14 سے 20 تک کے 160 سے زائد ایسے اساتذہ دفتری امور سرانجام دے رہے ہیں ، جن کی تقرری بطور استاد ہوئی تھی۔
ادارے نے پہلے مرحلے میں ان 160سے زائد میں سے 70کے قریب اساتذہ کرام کو تحریری طور پر ہدایت کی کہ وہ دفتر کے بجائے اپنے تعلیمی اداروں میں بطور استاد اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ان کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ اگر انہوں نے قانونی تقاضوں کے مطابق زمہ داری پوری نہیں کی تو ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی ہوگی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حتمی احکام کے باوجود بھی کچھ اساتذہ پس و پیش سے کا م لے رہے ہیں ، اس کی تصدیق 22 نومبر کے ایک انتباہی خط سے بھی ہوتی ہے ، ان اساتذہ کا یہ رویہ افسوسنا ک ہے۔
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ا اور سیکریٹری ایجوکیشن کا یہ عمل نہ صرف درست بلکہ قابل تائید بھی ہے ، کیونکہ بطور استاد یا دفتری فرائض دو الگ چیزیں ہیں، دونوں کے کوائف میں بھی بہت فرق ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو بھی چاہئے کہ تدریسی اور دفتری امور کے لئے الگ الگ تعیناتی اور تقرری کرے یعنی نئے سروس اور ریکروٹمنٹ رولز بنائے جائیں جس سے ٹیچنک اور ایڈمن کیڈر کو الگ الگ کیا جائے ، یہ بھی کہ دونوں کے جائز مسائل بھی ترجیحی بنیادوں حل کئے جائیں ۔ جائز قانونی تقاضوں کو پورا کرکے اگر کوئی فرد یا افراد اپنا کیڈر تبدیل کرتے ہیں تو ایسے فرائض انجام دینے والوں کو بے جا تنگ بھی نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ بھی کہ جو اساتذہ جائز اسباب کے بجائے کسی اور وجہ سے اصل فرض سے بچنا چاہتے ہیں یا جو افراد یا ادارے انکی سرپرستی کر رہے ہیں انکے خلاف بھی قانونی کارروائی ضروری ہے، تاکہ نسل نو کو تباہی سے بچایا جاسکے ۔
دعویٰ ہے کہ ایڈمن اور تدریسی کیڈر تبدیل نہ ہونے سے لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے ، جائز حق دار طویل عرصے تک اپنے محروم رہتے ہیں یا پھر انکو بھی غیر قانونی یا غیر مہذب راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، ان کے جائز مسائل قانونی اصلاحات کے ذریعے حل کئے جائیں تو اس شعبے میں بہتری آئے گی اور دونوں کیڈرز کے درمیان بے چینی اور بد گمانیاں بھی ختم ہونگی ۔
خطے میں خراب تعلیمی نتائج کے سدباب کے ضمن میں گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان ، صوبائی وزیر گلگت بلتستان غلام شہزاد آغا، چیف سکریٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا ، سیکریٹری سکول ایجوکیشن گلگت بلتستان اختر حسین رضوی اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو مزید سخت اور قابل عمل اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ایک سرکاری اور نجی ٹاسک فورس بھی بنانے کی ضرورت جو خراب نتائج اور مسائل کا مزید جائزہ لے۔ یہ ٹاسک فورس کارکردگی کی بنیاد پر شفاف سزا اور جزا کا نظام متعارف کرائے، اساتذہ کی ترقی میں انکی کارکردگی کو کم سے کم بھی 15 سے 20 فیصد جگہ دی جائے ۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ مجموعی طور پر ہر شعبے میں احساس زمہ داری میں کمی آئی ہے اور اب اس کمی کو دور کرنے کے لئے دنیا میں ترغیبات کا سلسلہ تیز کردیا گیا ہے۔ شعبہ تعلم اور صحت کو بچانے کے لئے ہمیں بھی اس جانب فوری جانا ہوگا۔ اسی طرح یک نصابی جدید ،مضبوط اور مربوط تعلیمی نصاب بھی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔