Search
Close this search box.
سیاست خبریں پاکستان کراچی تازہ ترین نمایاں شہر

صوبے کی بڑھتی آبادی پر تشویش ہے، آبادی میں اضافے سے ہمارے وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ

وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری سے قومی آبادی میں2.55فیصد کی شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد ملک کی کل آبادی 24 کروڑ 10 لاکھ جبکہ سندھ کی آبادی ساڑھے 5 کروڑ ہوگئی ہے۔ آبادی میں اضافے کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک بلند شرح پیدائش اور دوسرا پاکستان کے مختلف علاقوں اور دوسرے ممالک سے نقل مکانی۔ اس صورتحال کے باعث صوبے کے وسائل پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ بے روزگاری، صحت، تعلیم، رہائش اور خوراک کی فراہمی جیسے بحرانوں نے سر اٹھایا ہے۔

 

وزیراعلیٰ سندھ نے یہ بات پیر (11 نومبر) کو آبادی میں اضافے پر ٹاسک فورس کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل اور سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کیے گئے فیصلوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوا، صوبائی وزرا شرجیل انعام میمن، ڈاکٹر عذرہ پیچوہو، ناصر شاہ، سردار شاہ، شاہینہ شیر علی، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، چیئرمین پی اینڈ ڈی، صوبائی سیکریٹریوں، کنٹری ریپریزنٹو برائے یو این ایف پی اے ڈاکٹر لوئے شبانے ، یوایس ایڈ اور بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے نمائندوں، محکمہ آبادی کے تکنیکی مشیر طالب لاشاری اور دیگر نے شرکت کی۔

 

اجلاس میں وزیراعلیٰ نے سندھ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ حل کرنے کی اہمیت کا اجاگر کیا اور کہا کہ یہ ٹاسک فورس پہلے سے حاصل کی گئی کامیابیوں کے تسلسل کو برقرار رکھے گی، پالیسی سازی اور عملی اقدامات کے بارے میں بھی رہنمائی کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری میں ملک کی آبادی میں 2.55فیصد کی شرح سے اضافہ ریکارڈ گیا گیا۔ نتیجتاً ملک کی آبادی 24 کروڑ 10 لاکھ ہوگئی، صرف سندھ کی آبادی بڑھ کر ساڑھے پانچ کروڑ ہوگئی ہے اگرچہ حکام کو شک ہے کہ سندھ کی آبادی اصل اعداد وشمار سے کم دکھائی گئی ہے۔آبادی میں اضافے کی دو بڑی وجوہات کی نشاندہی کی اور بتایا کہ ایک بلند شرح پیدائش آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے اور دوسرا پاکستان کے مختلف علاقوں اور دوسرے ممالک سے سندھ کی طرف نقل مکانی ہے۔ اس صورتحال کے باعث صوبے کے وسائل پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ بے روزگاری، صحت، تعلیم، رہائش اور خوراک کی فراہمی جیسے بحرانوں نے سر اٹھایا ہے۔ ان چینلجز کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ نے بڑھتی آبادی کے سماجی معاشی اثرات کو کم کرنے کےلیے صوبائی حکومت کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ کم عمری میں شادی پر پابندی ایکٹ 2013، ری پروڈکٹو ہیلتھ رائٹس بل، سندھ پاپولیشن پالیسی 2016 جیسی قانون سازی کا حوالہ دیا اور فیملی پلاننگ 2015 پر عملدرآمد کو سندھ کی فعال نقطہ نظر کا حصہ قرار دیا۔

 

وزیراعلیٰ سندھ نے اجلاس میں موجود ماہرین کی مثبت گفتگو کو امید افزا قرار دیا اور کہا کہ اس سے صوبے کی ا ٓئندہ پاپولیشن پالیسیوں اور پائیدار ترقی کی کوششوں میں مدد ملے گی۔اجلاس میں سندھ کی بڑھتی آبادی کے چیلجز سے نمٹنے کےلیے فیملی پلاننگ 2030 کے لیے اہم اہداف اور مقاصد مقرر کیے گئے۔ اجلاس کو کئی کامیابیوں کا بھی بتایا گیا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ بتایا گیا کہ اسٹیک ہولڈرز کو فیملی پلاننگ 2023 ورکنگ گروپ اور دیگر اداروں میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں کامیابی ہوئی ہے۔ ایک اور کامیابی شادی کے امور میں مشاورت کےلیے علاقے کی دائیوں کا کردار ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا فیملی پلاننگ پر توجہ مرکوز کرنا بھی شامل ہے جس میں وہ ابتدائی انجکشن ڈوز بھی دے رہی ہیں۔ دیگر کامیابیوں میں سیانا پریس کا تعارف ، نوجوانوں تک تعلیم بالغان کے ذریعے رسائی، آر ایچ ایس بی، پروفیشنل ایسوسی ایشن کے ساتھ شراکت داری، این جی اوز کی جانب سے مانع حمل ادویات کی تقسیم، مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے اعداد وشمار جمع کرنا شامل ہیں۔ یو ایس ایڈ کی واشنگٹن ڈی سی میں مومینٹم پروجیکٹ نے سندھ کے کوسٹل امپلی منٹیشن پلان ( سی آئی پی) کو تنزانیہ اور گھانا کے ہمراہ دنیا کے بہترین اقدامات میں شمار کیا ہے۔
کئی کامیابیوں کے باوجود کئی مشکلات بھی درپیش ہیں۔ صحت کے مراکز تک لوگوں کو لانے ، ان کی رہنمائی اور دوبارہ آنے کےلیے لوگوں کو راضی کرنا چیلنجز ہیں۔ سی آئی پی کے پہلے مرحلے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اس دوران سپلائی پر توجہ دی گئی تاہم سہولیات کو استعمال کرنے کے حوالے سے رویوں میں تبدیلی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

 

ٹاسک فورس نے فیملی پلاننگ 2023 تک کے لیے تفصیلی روڈ میپ تیار کیا ہے اور درج ذیل اہداف مقرر کیے ہیں۔
۔ صحت اور آبادی کنٹرول کی سہولیات سب تک پہنچانے کےلیے سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت سے کام کیا جائےگا۔
۔ صارفین کے اطمینان کی خاطر خدمات کے معیار کو ترجیح دینا جس میں اعلیٰ معیار کی ادویات، آلات اور تربیت یافتہ عملے کی فراہمی شامل ہے۔
۔ لائف اسکلز ایجوکیشن میں نوجوانوں، ادھیڑ عمر افراد اور لڑکیوں کو شامل کرنا۔ مثبت سماجی اور جنسی رجحانات کے فروغ کےلیے مردوں اور سماجی رہنماؤں کو متحرک کرنا۔
۔ قانون سازی اور وکالت کے ذریعے سسٹم کو مضبوط کرنا، سماجی رجحانات اور رویوں میں تبدیلی اور محاسبے کے لیے اقدامات کرنا۔
۔ دوستانہ نگرانی اور ارتقائی عمل پر نظر رکھنے کے ذریعے سسٹم کو مضبوط کرنا اور اثرات کو قائم رکھنے کےلیے کثیر شعبہ جاتی شراکت داری۔

 

سی سی آئی کی سفارشات پر عملدرآمد اور پائیدار ترقی کے اہداف ( ایس ڈی جیز) حاصل کرنے کے کلیے وزیراعلیٰ نے صحت اور آباد کے شعبوں میں تعاون پر زور دیا خاص طور پر ضلعی اور مراکز کی سطح پر پی پی ایچ آئی اور آر ایم این سی ایچ کی شراکت ضروری ہے۔ روڈ میپ میں سی آئی پی کے اہداف پر عملدرآمد کےلیے مخصوص بھرتیاں اور لاجسٹک سپورٹ بھی شامل ہے۔ اس مقصد کےلیے 350 فیملی ویلفیئر ورکرز بھرتی کیے جائیں گے اور مانیٹرنگ کےلیے گاڑیاں خریدی جائیں گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے نجی املاک کے استعمال کی سہولت کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے گی تاکہ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے فیملی پلاننگ اصولوں پر عملدرآمد کیا جاسکے اور شراکت داروں، امدادی اداروں اور این جی اوز کے درمیان الائنس تشکیل دیا جا سکے۔ ٹاسک فورس نے فیملی پلاننگ اور بہبود آبادی کے اپنے عزم پر کاربند رہنے کا اعادہ کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بڑھتی آباد کے چیلنجز سے نمٹنے کےلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کوششوں پر زور دیا تاکہ سندھ کا خوشحال مستقبل یقینی بنایا جاسکے۔

جواب دیں

اقسام

رابطہ کی معلومات

ہمیں فالو کریں