المیہ!
سانحہ کارساز (18اکتوبر 2007ء) کو پورے 17سال گزرگئے اور 16سال کے دوران وفاق میں 2008ء سے2013ء تک مکمل اوراپریل 2022ء سے تاحال پیپلزپارٹی کی اتحادی اور صوبے میں 16سال سے پیپلزپارٹی کی اپنی حکومت ہے، اس کے باوجود مجرموں کی گرفت آج تک نہ ہوسکی، یہ المیہ ہے۔ سانحہ کارساز کا دن ناقابل فراموش ہے، اس دن شہر کراچی کی قابل دید خوشیاں چند ہی لمحوں میں غم اور صدمے میں بدل گئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی یقینا جہاں ان کے کارکنوں اور حامیوں وہیں جمہوریت پسند قوتوں کے لیے بھی خوشی کا باعث تھی، کیونکہ جمہوری قوتیں سمجھتی تھیں کہ ملک کی ایک سنجیدہ مقبول لیڈر کے وطن واپس آنے سے ملک میں جمہوریت کی بحالی اور عوامی حکمرانی کی راہ ہموار ہوگی، اس لیے حکمرانوں کے علاوہ تقریبا ہر طبقے نے اس ضمن میں کسی منفی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اگرچہ مرحومہ بے نظیر بھٹو کے بعض بیانات اور مستقبل کے حوالے سے پالیسیوں کے خدوخال ملک کے مذہبی اور امریکا مخالف طبقے کے لیے سخت تشویش کا باعث تھے۔
استقبال کی تیاری!
18اکتوبر2007ء کو پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی قائد کی وطن واپسی کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تیاریاں کیں آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان، فاٹا، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اندرون سندھ سے لاکھوں افراد اپنی قائد کے استقبال کے لیے کراچی پہنچے۔ الغرض یہ کہ4 ہزار کلومیٹر دور برف پوش سیاچن اور استور کے دامن سے بلوچستان کے صحرا، فاٹا اور خیبر پختونخوا کے پہاڑوں سے آزاد کشمیر کی وادیوں اور پنجاب کے میدانوں سے سندھ کے ریگستانوں تک تقریباً ہر ضلع اور تحصیل کے لوگ بے نظیر بھٹو کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔ تعداد کے حوالے سے 3سے 30لاکھ تک کے دعوے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کا کاروان جمہوریت میں شرکت محترمہ بے نظیر بھٹو سے محبت کا اظہار تھا۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کی مرکزی، صوبائی، ضلعی اور علاقائی قیادت نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے بہتر ماحول پیدا کیا اور یوں وہ ایک تاریخی استقبال کرکے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف وفاقی جماعت ہے بلکہ وفاق کی واحد علامت بھی ہے۔جس کا نتیجہ 18فروری2008ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بھر پور کامیابی کی صورت میں سامنے آیا، اگر چہ پیپلزپارٹی کی کامیابی میں بے نظیر بھٹو کی قربانی کا رہا ہے۔
خواہش!
اس طرح کے تاریخی مواقع کی کوریج کا اعزاز حاصل کرنا ہر حقیقی رپورٹر کی خواحش ہوتی ہے، اس روز اگر چہ راقم کی طبعیت ناساز تھی اور گھر والوں کی جانب سے اصرار تھا کہ اس حالت میں طبعیت مزید خراب ہوگی لہذا چھٹی کریں، مگر ہم اس تاریخی موقع کو ضائع نہیں کر نا چاہتے تھے، کیونکہ کسی بھی عامل صحافی کے لیے ایسے تاریخی مواقع کو نظر انداز کرنا اپنے فرض سے غفلت کے مترادف ہے ،اس لیے حسب ہدایت ہم کراچی پریس کلب پہنچے۔ پیپلزپارٹی کا پروگرام یہ تھا محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک بڑے جلوس کی شکل میں رات تک مزار قائد کے قریب جلسہ گاہ پہنچایا جائے گا، جہاں وہ اپنی تقریر میں آئندہ کی حکمت کا اعلان کریں گی۔ اسی منصوبے کے تحت ہم سب بھی تیار تھے۔
میڈیاکوریج!
محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کی کوریج کے لیے بین الاقوامی، قومی اور علاقائی ٹی وی چینلز اور اخبارات وجرائد سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد صحافی، کیمرہ مین اور فوٹو گرافر مصروف تھے، جن کو خصوصی پاسسز جاری کیے گئے تھے،جبکہ ایک درجن سے زائد ٹی وی چینلز نے استقبال کی براہ راست کوریج کی۔
صحافتی قافلہ روانگی!
راقم (عبدالجبار ناصر) سمیت دیگر صحافیوں کو 18 اکتوبر کو صبح 6 بجے کراچی پریس کلب مدعو کیا گیا تھا،جہاں صبح سوا آٹھ بجے تک سینکڑوں صحافی جمع ہوئے،جبکہ ایک بڑی تعداد رات12بجے پہنچی تھی۔صحافیوں کا قافلہ18اکتوبر کو3بڑی بسوں، 6کوسٹروں اور نصف درجن کے قریب دیگر گاڑیوں پر مشتمل صحافیوں کا قافلہ صبح 8 بجکر 35 منٹ پر کراچی پریس کلب سے پیپلزپارٹی سندھ کے سید وقار مہدی کی رہنمائی میں ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ سینئر صحافی یوسف خان مرحوم، شمس کریو،اعجاز شیخ،ثمیں آغااور راقم کو ٹرانسپورٹ کی قلت کے باعث جیو نیوز انگلش کی کار میں سوار کرکے قافلے میں شامل کیاگیا۔ ڈرگ روڈ تک تو قافلے کو کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑ،تا ہم شاہراہ فیصل کے دونوں جانب پیپلزپارٹی کے جیالے پارٹی جھنڈے اور اپنی قائد کی تصاویر تھامے ایئر پورٹ کی جانب گامزن تھے۔ ڈرگ روڈ کے علاقے اور ارشد منہاس روڈ کی جانب پیپلزپارٹی کے جیالوں کی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں جبکہ ہزاروں افراد نعرے بازی اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پیدل ہی منزل کی طرف عازم سفرتھے۔
صحافتی قافلہ جناح ایئر پورٹ!
رکاوٹوں اورعوام کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر کو عبور کرکے صحافیوں کا قافلہ تقریبا دن11 بجے بغیر ناشتے اور بھوک وپیاس کی حالت میں جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے قریب واقع مسجد کے پاس پہنچا، جہاں پراے ایس ایف اور رینجرز کے اہلکاروں نے صحافیوں کی سیکورٹی چیکنگ کی جس کے بعد صحافیوں کو ایک مرتبہ پھر گاڑیوں میں سوار کرکے ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہو نی کی اجازت دی گئی، جہاں پیپلزپارٹی کے راہنماء خالد احمد کھرل، منظور وسان، شازیہ عطاء مری، مفتی فیروز الدین ہزاروی، اے آر ڈی کے راہنماء عبدالقدیر خاموش، پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری نفیس صدیقی، ایم این اے شگفتہ جمانی اور دیگر موجود تھے تاہم بعدازاں وہاں سے یہ قافلہ دن ساڑھے11 بجے جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ کے ٹرمینل نمبر1 کی طرف روانہ ہوا اور رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا تقریبا دوپہر 12بجے اپنی منزل تک پہنچا۔
ٹرمینل نمبر1کا ماحول!
سیکورٹی اہلکاروں نے پیپلزپارٹی کے جیالوں کو جناح ٹرمینل نمبر1کے گیٹ کے پاس بڑے بڑے کنٹینرز لگا کر روکا ہواتھا،جس کے باعث ٹرمینل نمبر1تک صرف خصوصی پاسز کے حامل افراد اور پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کی رسائی ممکن تھی۔ تاہم بعد ازاں تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے جیالے اندر داخل ہوئے ان کے ہمراہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے تیار کیا گیا خصوصی ٹرک اور ”جانثار ان بے نظیر گارڈز“ کے سینکڑوں کارکن بھی تھے۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کے مطابق جانثاروں کی مجموعی تعداد5ہزار کے قریب تھی، جن کو پارٹی جھنڈے کے تیار کردہ کیپ اور بعض کو وردی بھی فراہم کی گئی تھی۔ دوسری جانب ایک بڑی تعداد کو سیکورٹی کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں اور ان کے لیے 18 اور 19 اکتوبر2007ء کے لیے خصوصی پاسسز کا اجراء ہوا تھا۔ ٹرمینل نمبر1پر ایک درجن سے زائد ٹی وی چینلز براہ راست کوریج دیگر تمام صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی جبکہ پیپلزپارٹی کے لیڈرز میڈیا کو اپنے بیان ریکارڈ اور کارکن نعروں اور خوشی کا اظہار میں مصروف تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کا طیارہ!
محترمہ بینظیر بھٹو کی دبئی سے روانگی کے حوالے سے ہم مسلسل معلومات جمع کر رہے تھے اور دوپہر ایک بج کر45منٹ پر امارات ائیر لائن کی فلائٹ نمبرEK-606 کے ذریعے بے نظیر بھٹو جناح انٹر نیشنل ایئر پورٹ پہنچیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ایئر پورٹ پر قدم رکھتے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کی آنکھوں سے خوشی آنسو نکلے اور انہوں نے خوشی سے نم آنکھوں کے ساتھ آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے بار گاہ الٰہی میں دعا کی اورکافی دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا اس موقع کی تصویر کی کافی تشہیر ہوئی۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو کو ایئر پورٹ کے اندر سے ہی جناح ٹرمینل نمبر1 پر لایا گیا اور امیگریش کا عمل مکمل کیا گیا۔ اس وقت تک ہزاروں جیالے تمام سیکورٹی اور رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ٹرمینل نمبر1 کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔
نعروں کی گونج!
محترمہ بے نظیر بھٹو کی آمد کے اعلان کے ساتھ ہی ایئر پورٹ جئے بھٹو، نعرے بھٹو، وزیر اعظم بے نظیر، خوش آمدید بے نظیر اور دیگر نعروں سے گونج اٹھا جبکہ صحافی جہاں بھوک اور پیاس سے نڈھال تھے وہیں ایک بڑے ایونٹ کی کوریج کا موقع ملنے پر خوش بھی تھے،تاہم 10سے 15گھنٹے کی بھوک با ربار دستک دے رہی تھی،بڑی کوشش کے بعد پیپلزپارٹی کراچی کے سیکرٹری اطلاعات سعید غنی نے صحافیوں کے لیے ایک ایک تھیلی کا انتظام کیا جس میں پانی کی ایک بوتل، ایک سیب،بسکٹ اور دال سیویاں کا ایک ایک پیکٹ تھا۔ سہ پہر3بج کر30منٹ جوں ہی بے نظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کے دیگر قائدین مخدوم امین فہیم، یوسف رضا گیلانی، رضا ربانی، مخدوم شاہ محمود قریشی، سید قائم علی شاہ، نثار احمد کھوڑو، ناہید خان، شیری رحمان، نوید قمر، راشد ربانی، لشکررعیسائی، قاسم ضیاء اور دیگر ٹرمینل نمبر1کے مہران لاؤنج سے خصوصی طور پر تیار کیے ہوئے ٹرک پر سوار ہو کر باہر آئے، نظر پڑتے ہی پیپلزپارٹی کے جیالے بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے ٹرک کی جانب دیوانہ وار دوڑ پڑے جبکہ صحافی میڈیا کے لیے خصوصی طور پر تیار کیے گئے ٹرکوں میں سوار ہوکر اس منظر کو ریکارڈ اور اس کا مشاہدہ کرتے رہے۔
صحافتی قافلہ واپسی!
راقم سمیت قومی اور بین الاقوامی صحافیوں کی اکثریت ٹرک نمبر14،13اور بسوں کی چھتوں پر سوار تھی جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خصوصی فلوٹ سے تقریباً 100میٹر کے فاصلے پر تھے۔ 3بجکر45منٹ پر قافلہ روانہ ہوا راستے میں لوگ اپنی قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ ٹرمینل نمبر 1سے شاہراہ فیصل تک ہمیں انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے اسٹار گیٹ تک کا تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ قافلے نے 3گھنٹے میں طے کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حفاظت کے لیے جو پلان تیار کیا گیا تھا اس کے مطابق بے نظیر کے فلوٹ کے چاروں اطراف”جانثاران بے نظیر گارڈز“ کے 2حصار انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائے ہوئے ہوں گے جس کے بعد دائیں، بائیں آگے اور پیچھے پولیس کی گاڑیاں ہوں گی جن کی مجموعی تعداد ایک درجن جبکہ پولیس والوں کی تعداد3سے4درجن کے قریب ہونگے۔ اس کے بعد صحافیوں کے ٹرک اور پیپلزپارٹی کے سیکورٹی اہلکار ہوں گے مگر یہ پلان ابتدائی طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے باہر آتے ہی ناکام ہواتانظر آیاتاہم اسٹار گیٹ تک کچھ نہ کچھ اس پر عمل ہوتا رہا۔
سیکیورٹی پلان اور قافلہ!
اسٹار گیٹ کے بعد یہ پلان مکمل طور پر ناکامی سے دو چار ہوا اور پیپلزپارٹی کے کئی سینئر رہنماء اور متعدد نجی گاڑیوں میں سوار دیگر افراد اپنے تیار کیے ہوئے سیکیورٹی پلان کو بالائے طاق رکھ کر میڈیا کے ٹرکوں کو بائی پاس کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اسٹار گیٹ تک محترمہ بے نظیر کا فلوٹ پیچھے اور صحافیوں کے ٹرک آگے تھے تاہم اسٹار گیٹ کے بعد یہ صورت حال یکسر بدل گئی،دوسری جانب اسٹار گیٹ سے جہاں تک قافلے نے سفر کیا 98 فیصد علاقے میں اسٹریٹ لائٹس بند تھیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈرگ روڈ کے پاس راشد منہاس روڈ کی طرف جانے والے پل کے اوپر تو اسٹریٹ لائٹس اردگرد عمارتوں کی لائیٹ روشن مگر اس کے نیچے شاہراہ فیصل پر لائٹس بند تھیں۔ لوگوں کے رش کے باعث قافلہ کی رفتار انتہائی سست تھی مگر سوائے3مقامات کے قافلہ3سے4منٹ سے زیادہ کہیں پر نہیں رکا۔ پہلی مرتبہ ناتھا خان پل سے پہلے کالونی گیٹ کے پاس15منٹ تک رکا، قافلے کی سیکیورٹی پر معمور بعض شرکاء کا کہنا تھا کہ اندھیرے کی وجہ سے پل سے گزرنے کی کلیرنس نہیں مل رہی ہے کیونکہ اتنے بڑے قافلے کو سرچ کرنے کے لیے2سرچ لاٹس تھیں اور وہ بھی2پولیس اہلکاروں کے ہاتھ میں تھیں جو گاڑی میں سوار محترمہ بے نظیر بھٹو کے فلوٹ سے آگے چل رہے تھے۔
عوام کا جوش!
لوگوں کی ایک بڑی تعداد فلیٹوں کی بال کونیوں، پلوں اور درختوں میں کھڑے ہو کرپر جوش انداز میں قافلے کو دیکھ رہی تھی۔ تقریباً رات پونے10بجے قافلے نے ڈرگ روڈ ریلوے پھاٹک کو کراس کیا اور سست رفتاری سے آگے بڑھتا رہا۔ فیصل بیس کے قریب کراسنگ برج پر سے خواتین اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے قافلے پر پھول نچاور کیے۔ راقم،2کیمرہ مین اور پیپلزپارٹی کے 4جانثار اسٹار گیٹ کے پاس سے ہی ٹرک نمبر13 کے اوپر (سر پر) بنے کیبن میں سوار تھے جبکہ دیگر صحافی اور محافظ ٹرک میں تھے جس کی وجہ سے کیبن والوں کو جلوس دونوں اطراف میں نمایاں نظر آرہا تھا۔ ڈرگ روڈ کے پاس صحافی سعید جان بلوچ(امن کراچی) بھی کیبن میں سوار ہوئے۔ محترمہ بے نظیر کا فلوٹ اسٹار گیٹ سے فیصل بیس سے پہلے والے کٹ تک ون وے سائٹ پر سفر کرتا رہا اور مذکورہ مقام سے رائٹ سائٹ پر گیا بعدازاں قافلہ فیصل بیس کے مین گیٹ کے سامنے اچانک رک گیا اور آتش بازی شروع ہوئی جو تقریباً15منٹ تک جاری رہی۔ جس پر ہمارے دوست سعید جان بلوچ نے کہا کہ آتش بازی کے چکر میں کہیں فائرنگ نہ شروع ہوجائے اورجو لوگ آتش بازی کررہے ہیں غلط کررہے ہیں، تاہم تقریباً15منٹ بعد قافلہ روانہ ہوا اسی دوران پیپلزپارٹی کے بعض مرکزی قائدین بے نظیر کے فلوٹ سے اتر کر پیچھے چلے گئے جن میں میاں رضا ربانی، نوید قمر، سیدقائم علی شاہ اور دیگر شامل تھے۔ بعد ازاں سیدقائم علی شاہ واپس فلوٹ کی طرف چلے گئے۔ اس موقع پر سیکورٹی میں معمور بعض کارکنوں نے بتایا کہ محترمہ بے نظیر فلوٹ پر بنے ہوئے خصوصی بلٹ پروف کیبن میں آرام اور قائد اعظم کے مزار کے قریب جلسہ گاہ میں تقریر کی تیاری کرنے چلی گئی ہیں جس کے باعث اب رہنماء آرام کرنے جارہے ہیں۔
کارساز!
رات 12بجنے سے چند منٹ قبل قافلہ کارساز پل کے پاس اچانک رک گیا اور تقریباً 7سے10منٹ تک رکا رہا۔ اس وقت قافلے کی پوزیشن یہ تھی کہ سب سے آگے سینکڑوں افراد کا مجمع خوشی میں مصروف،جبکہ فلوٹ کے چاروں اطراف جانثار ان اور پولیس کے حصار،جس کے پیچھے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی ایک درجن سے زائد گاڑیاں تھیں اور دوسری جانب فلوٹ کے پیچھے بسیں، پیدل لوگ اور دیگر گاڑیاں تھیں جبکہ صحافیوں کے ٹرک پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی گاڑیوں کے پیچھے تھے جن میں ٹرک نمبر13جس میں راقم، سعید جان بلوچ، شہید عارف خان(ARY)، محمد انور(ARY)، ذوالفقار وہوچو، نیاز کھوکھر دیگر صحافی اور پیپلزپارٹی کی ارکان سند ھ اسمبلی شمع عارف مٹھانی نسرین چانڈیو اور دیگر سوار تھے اور یہ ٹرک سب سے آگے تھا، ٹرک نمبر14جس میں سینئرصحافی یوسف خان(نوائے وقت)، شمس کیریو(امت)، منصور درانی(عوام)، الفت مغل(دن)، ارباب چانڈیو(کے ٹی این)، ارشاد گلابانی(کاوش)، عاجزجمالی(اے آر وائی)، زبیر میمن(محشر)، شکیل سلاوٹ(الشرق)، نوازطاہر(لاہور)،حسن منصور(ڈیلی ٹائم) اور دیگر سوار تھے یہ ٹرک دوسرے نمبر پر تھا صحافیوں کے باقی ٹرک ان کے پیچھے تھے۔
ہمارا ارادہ!
کارساز کے پاس جب قافلہ پہنچاتو رات کے 12 بجے اور اسی رفتار سے چلتا تو صبح 6 بجے تک ہی مزار قائد جلسہ گاہ قافلہ پہنچ سکتا تھا، ہم نے ارادہ کیا کہ بلوچ پل (جو کار ساز سے تقریباً 300 میٹر دور ہے) کے پاس قافلے سے الگ ہوکر کورنگی عوامی کالونی گھر جائیں اور صبح فجر کے وقت جلسہ گاہ پہنچیں ، مگر رب کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
پہلادھماکہ!
رات12بجکر5یا6منٹ پر اچانک دھماکے کی آواز آئی جو قدرے ہلکی تھی قبل ازیں راقم (عبدالجبارناصر) اور سعید جان بلوچ تھکن کی وجہ سے ٹرک کے کیبن سے نیچے اترکر دیگر صحافیوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ دھماکے کے وقت راقم جاں بحق ہونے والے کیمرہ میں عارف خان(اے آر وائی) اور بعض دیگر افراد جن میں پیپلزپارٹی کے کارکنان بھی شامل تھے ٹرک کے کونے میں پاؤں لٹکا کر جبکہ ہمارے دیگر ساتھی تھکن کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے۔ دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی راقم اور عارف خان شہید ٹرک سے نیچے اترے جبکہ دیگر ساتھی اٹھ کھڑے ہوئے، عارف خان (حالت امن میں غالباً عارف خان کی آخری گفتگو ہم سے ہوئی) نے کیمرہ ہاتھ میں لیا اور بھاگتے ہوئے دھماکے کی آواز کی طرف بڑھا اس وقت بے نظیر کافلوٹ وہاں سے تقریباً80سے100میٹر کے فاصلے پر کارساز پل کراس کرکے پی ایس او پیٹرول پمپ کے سامنے تک پہنچ چکا تھا۔
دوسرا دھماکہ!
راقم درمیان کی گرین بلٹ اور شاہراہ فیصل کا جنوبی ٹریک کراس کرتے ہوئے فٹ پاتھ تک پہنچا، تاکہ کسی فائرنگ وغیرہ کی صورت میں محفوظ رہا جاسکے۔ جہاں سینئر صحافی موسیٰ کلیم ایک شخص کے ساتھ کھڑے تھے جو (شخص ) بہت ہی زیادہ گھبرایا ہوا تھا راقم نے موسیٰ کلیم سے پوچھا کیا ہوا انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے؟ صرف ایک آواز آئی ہے اس دوران بے نظیر کے فلوٹ سے تقریباً 40 سے 50میٹر کے فاصلے پر موجود بس میں سوار افراد نے دیوانہ وار بھاگنے والے لوگوں کو آوازیں دینا شروع کیں کہ کچھ نہیں ہوا ہے صرف ٹائر پھٹ گیا، کچھ نے کہا کہ ٹرانسفارمر پھٹ گیا ہےجبکہ بھاگنے والوں کہنا تھا کہ دھماکہ ہوا ہے جس پر راقم نے پل کے اوپر جاکر صورت حال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا، ابھی پہلے دھماکے کو2سے3منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک خوفناک آواز کے ساتھ دوسرا دھماکا ہوا ایک شعلہ اوپر اٹھا جس کے بعد لوگ بھاگنا شروع ہوئے اور ہر طرف چیخ و پکار کا سلسلہ شروع ہوا۔
تکلیف دہ لمحہ!
دوسرے دھماکے بعد راقم نے پل کے اوپر جانے کا ارادہ ملتوی کیا اور سٹرک کی جانب سے زیادہ رش اور لوگوں کی بھگدڑ کی وجہ سے راقم نے پل کی پچھلی دیوار کے ساتھ چکر کاٹتے ہوئے 300 سے 350 میٹر کا فاصلہ طے کرکے جائے وقوعہ تک پہنچنے کا فیصلہ کیا اسی دوران اپنے ایڈیٹر قاری عبدالرحمان اور اپنے اہلخانہ سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی مگرکامیابی نہیں ہوئی کیونکہ میرا جوفون نمبر دفتر اور گھر تھا وہ فون زمین پر گرنے کی وجہ سے اچانک اسی وقت خراب ہوا اور دوسرے فون سے کال نہیں مل رہی تھی یہ لمحہ انتہائی تکلیف دہ تھا کیونکہ اس واقع سے تھوڑی دیر قبل میری اہلیہ نے فون پر بتایا تھا کہ آپ ٹی وی نظر آرہے ہیں اور آپ لوگوں کا ٹرک بے نظیر بھٹو کے فلوٹ قریب مجھے خدشہ ہواکہ اگر گھر فوری اطلاع نہ دی تو اہلخانہ سخت پریشان ہو نگے، کیونکہ تمام ٹی وی چینلز واقع کی لمحہ بہ لمحہ خریں دے رہے تھے۔
بھائی کی عقل مندی!
اس موقع پر میرے چھوٹے بھائی مولانا محمد نزیرناصر گھر پر موجود تھے، دھماکے کی خبر سنتے ہی انہوں نے فون پر ہم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر فون نہیں لگ رہاتھا، جس کی وجہ سے انکو سخت تشویش ہوئی۔ انہوں نے پہلا کام تو یہ کیا کہ ٹی وی کیبل نکال دی تاکہ اگر میرے اہلخانہ دوسرے کمرے سے آکر ٹی وی دیکھ بھی لیں تو کیبل نہ چلے۔ دوسرا کام یہ کیا کہ مالک مکان خاتون کو بتایاکہ کار ساز میں یہ حادثہ ہوا ہے اور بھائی جان (راقم) بھی وہاں موجود تھا،،مگر انکا فون نہیں لگ رہا ہے۔ آپ بھی حادثے کے حوالے سے گھروالوں کو کچھ نہ بتانا۔ تسلی کے بعد وہ معلومات جمع کرنے کے لئے گھر سے نکلے اور قریب دوستوں کے پاس جاکر خبریں چیک کرتے اور فون پر مسلسل رابطہ کرتے رہے۔ انکی یہ عقل مندی کافی کام آئی کیونکہ رات پونے ایک بجے کے قریب اہلیہ اٹھیں اور ٹی وی لگایا تو وہ کیبل نہیں چل رہا تھا۔ غالباً رات سواایک بجے کے قریب مالک مکان اماں سے رابطہ ہوا اور ہم نے اپنی خیریت سے آگاہ کیا۔
شاہ محمود قریشی کی پریشانی!
واقع کے چند لمحوں بعد راقم جائے وقوعہ سے20گز کے فاصلے پر پہنچا جہاں پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد جائے حادثہ کی جانب سے بھاگتے ہوئے آرہی تھی ہم جائے حادثہ کی طرف جارہے تھے، آنے والوں میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر اور مخدوم شاہ محمود قریشی (تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء)بھی موجود تھے جو بہت ہی گھبرائے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوگئے ، کیونکہ اس سے پہلے یہ افواہ عام ہوچکی تھی کہ خودکش حملہ ہوا ہے۔ شلوار قمیض اور ٹوپی میں ملبوس باریش بندے کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھ کر مزید پریشان بلکہ خوفزدہ ہوگئے، ہم فوری سمجھ گئے اور شاہ صاحب کو اپنی مکمل شناخت کرائی کہ ہم صحافی ہیں۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ ان کے فرزند زین شاہ زخمی ہوئے ہیں۔شاہ صاحب پناہ گاہ کی تلاش میں تھے معلوم کرنے پر راقم نے انہیں ریلوے پٹری والے علاقے کا راستہ بتایا کیونکہ اس وقت یہ علاقہ قدرے محفوظ تصور کیا جا رہا تھا۔راقم کا شاہ صاحب سے پہلا سوال یہی تھاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کس حال میں ہیں، شاہ صاحب نے بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں اور دھماکے کے وقت بے نظیر بھٹونیچے کیبن میں گئی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے وہ محفوظ ہیں۔
دوبارہ جائے حادثہ پر!
شاہ صاحب سے غالباً ایک منٹ کی گفتگو کے بعد فوری طور پر ہم جب تقریباً دوسرے دھماکہ کے5یا6منٹ بعد جائے وقوعہ پر پہنچے تو تقریباً100سے150میٹر کے علاقے میں ہر طرف لاشیں اور زخمی خون میں لت پت انسان چیونٹیوں کی طرح پڑے ہوئے تھے جن کا کوئی پرسان حال نہ تھا اور استقبالی خصوصی ٹرک(فلوٹ) پر آگ لگی ہوئی تھی،جیالے اوربیشتر لوگ چند منٹ میں راہنماؤں سمیت وہاں سے جا چکے تھے،ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ البتہ کچھ فوٹو گرافر، صحافی،کمرہ مین اور چھیپا ویلفیئر کی ایک ایمبولینس کے رضا کار امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے، جبکہ جائے وقوعہ پرہر طرف خون ہی خون تھا اور کچھ بعد 25سے30منٹ میں لاکھوں لوگوں کے بارے میں یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی منتقلی!
محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ دوسرے دھماکے کے چند ہی لمحوں بعد محترمہ بے نظیر کو سید قائم علی شاہ، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور دیگر بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھا کربلاول ہاؤس کی طرف روانہ ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب بے نظیر کے فلوٹ سے 8 سے 10فٹ کے فاصلے پر ایک آلٹو کار جل رہی تھی تقریباً 15سے 20منٹ بعد ایمبولینس آئی اور ایک فائر بریگیڈ کی گاڑی ڈرگ روڈ کی طرف سے مزید تاخیر سے جائے وقوعہ پر پہنچی اس موقع پر موبائل فون بھی صحیح کام نہیں کررہے تھے۔
ساتھیوں کی تلاش!
اگ و خون، زخمیوں اور لاشوں کا خوفناک منظر تھا، جس میں ہم اپنے ساتھیوں کو تلاش کررہے تھے، اس دوران اپنے ایڈیٹر (روز نامہ اسلام کراچی)قاری عبدالرحمٰن،اہلخانہ اور ٹرک نمبر13اور14اور دیگر میں سوار دوستوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگرایڈیٹر،اہلخانہ اور ٹرکوں میں سوار صحافیوں میں سے صرف شمیم الرحمان، یوسف خان، طاہر حسن خان، شمس کیریو اور ریاض ساگر سے رابطہ ہو سکا،جنہوں نے عارف خان کے انتقال اور متعدد صحافیوں کے زخمی ہو نے کی اطلاع دی۔افراتفری کا یہ عالم تھاکہ 200میٹر کی حدود میں ہوتے ہوئے بھی صحافی اپنے ساتھیوں کو لاشوں اور زخمیوں میں تلاش کر رہے تھے اور جن سے رابطہ ہوتاان سے دیگر کے بارے میں معلومات حاصل کرتے۔
ایڈیٹر سے پہلا رابطہ!
رات تقریباً ایک بجکر35منٹ پر ایڈیٹر قاری عبدالرحمان سے رابطہ ہوا اورہم نے کھری کھری سنانا شروع کردیں، انہوں نے کئی منٹ تک تحمل سے سنا اور پھر بتایا کہ میں رات 12بجے ضروری کام سے باہر گیا ہوا تھا اور جس نمبر پر آپ اپنے نئے نمبر سے فون کر رہے تھے وہ دفتر میں تھا اور میں دوسرے نمبر سے آپ کے اصل نمبر پر رابطہ کر رہا تھا، مگر وہ بند تھا، جس کی وجہ سے میں خود پریشان ہوا، میں نے کرائم رپورٹرکاشف نعیم سمیت دو رپورٹر کوجائے حادثہ اور ہسپتال روانہ کردئے ہیں۔ہمیں آپ کی پریشانی تھی، اب آپ گھر جائیں اور سکون کریں۔
گھر روانگی!
ہماری کوشش تھی کہ جناح ہسپتال جائیں،مگر لوگوں کے ردعمل کا خدشہ تھا، کیونکہ خودکش افواہ کے بعد کئی احباب نے مشورہ دیاکہ اس حلیہ کے ساتھ ہسپتال جانا ٹھیک نہیں ہے اور رات 2بجے کے قریب بلوچ پل کی جانب پیدل روانہ ہوئے تاکہ گھرجاسکیں۔اس خوفناک اور قیامت کے مناظر کو ہم کبھی بھی نہیں بھول سکیں گے،آج بھی ہم جب اس علاقے سے گزرتے ہیں توآنکھوں کے سامنے وہی منظرآتا ہے۔ راستے میں دہشت اور خوف تھا، کافی پیدل چلنے کے بعد بلوچ پل اتر کرکورنگی کاز وے سے کچھ پہلے ایک سبزی والا ٹرک آیا، جس کو اشارہ کیا اور ان کو ساری صورتحال بتائی۔ جس پر سوار ہوکر کورنگی گودام (بروکس)چورنگی پہنچے اور وہاں سے ایک اور گاڑی میں سوار ہوکر فجر کی آذان سے کچھ دیر قبل گھر پہنچے۔
افسوناک سانحہ!
اس خوفناک سانحہ میں 150افراد جاں بحق اور540سے زائد زخمی ہوئے یہ ملکی تاریخ کا خوفناک سانحہ ہے۔18اکتوبر کے سانحہ کارساز کراچی نے ملکی سیاست کو ہلاکر رکھ دیا۔ اس واقعہ کے بعد پیپلزپارٹی اور سابق صدر مشرف مرحوم کے درمیان ڈیڈلاک پیدا ہوا جس کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے بعض رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف بیان بازی کی بلکہ سانحہ میں ملوث ہونے کے حوالے سے سنگین الزامات بھی لگائے۔
17سال بعد بھی جواب کی تلاش!
سانحہ کارساز (18 اکتوبر 2007ء) کے بعد ملکی سیاست میں کئی خدشات،تحفظات اور سوالات پیدا ہوئے۔ حکومت نے سانحہ کارساز کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ 48گھنٹوں میں پیش کرنے کا اعلان تو کیا،مگر آج 17سال بعد بھی یہ بھی حتمی طور پر تعین نہ ہوسکا ہے کہ یہ خودکش، ٹائم یا ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے تھے۔حالانکہ اس 17 سال میں بہت کچھ بدل چکا ہے جب 17سال میں بم دھماکوں کی نوعیت ہی معلوم نہیں ہوسکی تو ذمہ داروں کا تعین کب،کیسے اور کون کرتا؟، کہا جاتا ہے کہ ان دھماکوں میں مجموعی طور پر 20 سے 25 کلو گرام بارود استعمال ہوا ہے۔سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے اپنے دور میں دعویٰ کیا کہ تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، مگر یہ پیش رفت ہمیں کہی نظر نہیں آئی جبکہ اصل فریق محترمہ بے نظیر بھٹواس وقت کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور انہوں نے سندھ کے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ایک خط کے ذریعے کہا کہ سانحہ 18 اکتوبر کی تحقیقات غیرملکی تحقیقاتی اداروں کے ذریعے کرائی جائے، جبکہ اس وقت کی حکومت نے حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تحقیقاتی ادارے اتنے فعال اور اہل ہیں کہ وہ اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کرسکتے ہیں اور تحقیقات کے لیے غیرملکیوں کو نہیں بلایا جائے گا۔
دعوے!
محترمہ بے نظیر بھٹو اور حکومت میں شامل بعض لوگوں کا یہ اصرار رہا کہ یہ خودکش حملے ہیں جبکہ بیشتر عینی شاہدین،حکومتی جماعت اور پیپلزپارٹی کے بعض رہنما اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان دھماکوں کو خودکش حملے قرار دینے سے واضح طور پر انکاری تھے۔ متعدد عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دونوں بم دھماکے پولیس موبائل اور ایک کار میں ہوئے ان کا خودکش حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر خودکش حملہ آور نے حملہ کرکے مرحومہ بے نظیر بھٹو کو ختم کرنے کا منصوبہ ہی بنایا تھا تو پھر ان کے پاس ایئرپورٹ سے کارساز تک تقریبا 9کلو میٹر کے علاقے میں درجنوں درخت،نصف درجن کے قریب پل اور دیگر کئی مقامات تھے جہاں سے وہ آسانی کے ساتھ نشانہ بناسکتا تھا کیونکہ سیکیورٹی کا انتہائی فقدان تھا۔ واقعہ کی تمام صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ خودکش حملے کی بجائے معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے۔ خودکش حملہ قرار دینے کا مقصد معاملے کو دبانا بھی ہوتا ہے۔
اسٹریٹ لائٹس کی بندش!
محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبالی ”کاروان جمہوریت ریلی“ کے دوران شاہراہ فیصل پراسٹریٹ لائٹس کی بندش، بے نظیر بھٹو کی جانب سے وطن واپسی کے اعلان کے بعد بعض حکومتی ذمہ داروں اور خود محترمہ کے بعض بیانات، صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے ایک روز قبل استقبالی ریلی میں خودکش حملوں کے خدشے کا اظہار، 16اکتوبر کو لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی پریس کانفرنس میں کچھ ہونے کی صورت میں 3 افراد کو نامزد کرنے کا خط اور بم دھماکے دوسرے روز محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ بیان کہ”حکومت بحیثیت حکومت ملوث نہیں ہے تاہم بعض افراد انفرادی طور پر ملوث ہوسکتے ہیں“ اور اس حوالے سے جانبین کے دیگر بیانات اور اقدام کو مدنظر رکھکر ان کے سروں کو ملایا جائے تو صورت حال کسی حد تک واضح ہوتی ہے کہ سانحہ 18 اکتوبر کے اسباب کیا ہیں اور ذمہ دار کون ہے؟
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت!
سانحہ18اکتوبر کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹونے حکومت کو بھی سخت دباؤ میں لیا یہی وجہ ہے 27اکتوبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے لاڈکانہ کے دورے کے دوران ان کو صدر اور وزیر اعظم کا پروٹوکول ملا۔مگر یہ پروٹوکول بھی محترمہ کو ان سازشوں نہ بچاسکا، اور یوں وہ خود27دسمبر2007ء کودہشت گردوں کا نشانہ بن گئی، وفاق میں 5سال پیپلزپارٹی کی اپنی اور حالیہ 3سال سے اتحادی حکومت،ایوان صدر میں انکے شوہر آصف علی زرداری کی دوسری بار موجودگی،سندھ میں 16سال سے جیالوں کی حکومت اور اداروں میں کنٹرول کے باوجود17سال بعد بھی معلوم نہ ہوسکا کہ مرحومہ بے نظیر بھٹوکے حقیقی قاتل کون تھے؟ اورشایدکچھ قوتیں معلوم بھی نہیں کر نا چاہتی ہیں۔ یہ ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ ہم جلدی بھول جاتے ہیں۔