گوٹھ آباد کے نام پر مبینہ جعل سازی، سندھ حکومت کے وکیل کا بیشتر سند جعلی ہونے کا اعتراف

کراچی میں نجف علی گوٹھ کے نام پر مبینہ جعل سازی کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ درخواست گزار نے عدالت سے التجا کی کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے جعلی گوٹھ کے نام پر زمین الاٹ کردی۔ جو گوٹھ ظاہر کیا گیا علاقہ میں اس نام کے گوٹھ کا وجود ہی نہیں۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ جو پلاٹ انہیں الاٹ کئے گئے تھے وہی پلاٹ اب ایک کم عمر بچے کے نام پر الاٹ کئے گئے ہیں۔ 

سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے بریمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئے کہ آدھا کراچی گوٹھ آباد اسکیم کے تحت الاٹ کیا جارہا ہے۔ ریونیو والے بنے بنائے فلیٹ گوٹھ آباد کے تحت الاٹ کررہے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں منگھوپیر کے علاقہ میں آفریدی کے نام پر گوٹھ بنادیا گیا جبکہ اس آفریدی کی عمر چالیس برس کے قریب ہوگی۔ چالیس برس کے بندے کے نام پر گوٹھ قائم نہیں ہوسکتا، گوٹھ کو کم از کم 100برس کے بعد ڈکلیئریشن ملتی ہے۔

منگھوپیر میں ایک گوٹھ چار افراد کے نام پر بھی رجسٹرڈ ہے۔ شہریوں کے بنے ہوئے گھروں پر گوٹھ کی اسناد دی جا رہی ہیں، اصل الاٹیز دربدرد ہیں اور گوٹھ آباد کئے جارہے ہیں۔ عدالت نے سندھ حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ کتنے گوٹھوں کی سندیں جاری کی جاچکی ہیں۔

عدالت میں سندھ حکومت کے وکیل ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل میراں محمد شاہ نے اعتراف کیا کہ گوٹھوں کی بیشتر سند جعلی ہوتی ہیں۔ ہزاروں گوٹھ جعلی بنائے گئے۔

عدالت نے ایم ڈی اے سے سوال کیا کہ وہ اپنی زمین کا تحفظ کیوں نہیں کرتے ؟  جس پر ایم ڈی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گوٹھ کی تمام سندیں منسوخ کرکے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کردیا ہے۔ تمام قبضے ختم کروائے جارہے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر نے جعلی سندیں جاری کرنے والوں کے خلاف فوجداری کاروائی کرنے کے ریمارکس دئے۔ عدالت تمام غیر قانونی تعمیرات روکنے کا حکم دیا اور ایم ڈی اے ، مختیارکار اور ریونیو افسران سے 17 فروری تک وضاحت طب کرلی۔
Spread the love
جواب دیں
Related Posts