سندھ اور پنجاب میں کچے کے علاقے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے کڑا امتحان بن گئے۔ ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں تھم نہ سکیں۔ ڈاکوؤں نے سوئی گیس کمپنی کے ملازمین کو بھی یرغمال بنالیا۔
جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق کندھ کوٹ میں کچے کے ڈاکوؤں نے تنگوانی ٹھل لنک روڈ سے سوئی سدرن کے دو چوکیداروں کو اغوا کر لیا۔ سوئی سدرن کے چوکیداروں کے اغوا کے خلاف گجرانی قبیلے کے افراد نے تنگوانی ٹھل روڈ پر احتجاج بھی کیا ہے۔
پولیس کے مطابق سوئی سدرن کے چوکیداروں کے اغواء کے بعد کندھ کوٹ کے کچے میں ڈاکوؤں کے پاس موجود مغویوں کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے ڈاکو ایک سال میں 400 سے زائد افراد کو اغوا کرچکے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق بالائی سندھ کے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں اس وقت بھی 35 سے 40 افراد ڈاکووں کی تحویل میں ہیں۔
رواں ماہ پنجاب میں بھی کچے کے ڈاکوؤں نے ریسکیو 1122 کے اہلکار سلیم ہاشمی کو اغواء کرلیا تھا اور اسکی رہائی کے بدولے میں ایک کروڑ روپے کا تاوان طلب کیا تھا۔
کچے کے ڈاکوؤں نے لوگوں کو اغواء کرنے کیلئے جدید طریقہ اختیار کرنے کے ساتھ ٹیکنالوجی کا سہارا لینا بھی شروع کردیا ہے۔ گزشتہ ماہ ڈاکوؤں نے فیس بک پر کار کی فروخت کا اشتہار دیا اور پھر جھانسہ میں پھنس کر کار خریدنے آنے والے شہریوں کو اغواء کرلیا تھا۔
جعلی اشتہار کا جھانسہ دے کر اغواء کا یہ واقعہ پنجاب میں قصور کے کچے میں پیش آیا اور اغواء کئے گئے شہریوں کی رہائی کے بدلے 2 کروڑ روپے تاوان طلب کیا تھا تاہم پولیس نے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کرتے ہوئے دونوں شہریوں کو بازیاب کرالیا۔
ڈاکوؤں کی جانب سے تاوان نہ ملنے پر متعدد اغواء کاروں کو قتل بھی کیا جاچکا ہے جس میں کندھ کوٹ کا پرائمری ٹیچر بھی شامل ہے اور 10 دن سے زائد گزرنے کے باوجود ڈاکو پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں نہیں آسکے۔
ڈاکوؤں کی جانب پولیس والوں پر حملے کرکے انہیں یرغمال بنانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوچکے ہیں۔ پولیس اور رینجرز کی جانب سے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کئی آپریشنز کی جاچکے ہیں لیکن وقتی طور پر خاموش ہونے کے بعد ڈاکوؤں کے گروہ دوبارہ فعال ہوجاتے ہیں۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے اور آپریشن میں کامیابی کیلئے غیر معمولی حکمت عملی اور لائحہ عمل اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ آئی جی سندھ نے کہا ہے کہ سی پی ایل سی سے ٹیکنیکل سپورٹ کو بھی ممکن بنایا جائے گا۔ اس حوالے سے پولیس اور سی پی ایل سی کا اشتراک یقیناَ مفید ثابت ہوگا۔
کچے کے علاقے پنجاب میں دریائے سندھ کی گزرگاہ ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور رحیم یار خان کے دونوں اطراف کا علاقہ ہے اسی طرح سندھ میں گھوٹکی،سکھر، شکارپور، کشمور اور کندھ کوٹ کے دونوں اطراف کے علاقے کچے کے علاقے کہلاتے ہیں۔
ان علاقوں میں ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے مسلسل وارداتوں میں مصروف ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کچے کا علاقہ سال کے زیادہ تر عرصے میں خشک رہتا ہے لیکن سیلابی موسم میں یہ پانی سے بھر جاتا ہے۔
جنگلات، جھاڑیوں اور کچی زمین کی وجہ سے یہاں ڈاکوؤں کے لیے چھپ کر اپنی کارروائیاں کرنا اور یہاں پناہ لینا آسان ہو جاتا ہے۔