کراچی کی خاتون قیدی انتقال کے 7 ماہ بعد بےگناہ قرار

کراچی کی رہائشی صائمہ فرحان کو قتل کیس میں تقریباً ڈھائی برس بعد انصاف ملا لیکن اپنی بےگناہی کے فیصلہ کو سننے کے لئے ملزمہ اب اس دنیا میں ہی نہیں۔ صائمہ فرحان نامی خاتون کو دنیا سے گزرے 7 ماہ گزر گئے اور انتقال کے 7 ماہ بعد صائمہ کو قتل کیس میں بے گناہ قرار دیا گیا۔

 

کراچی کی سیشن کورٹ نے 10 جنوری کو جرم ثابت نہ ہونے پر صائمہ فرحان نامی خاتون اور اسکے گھر کے 4 افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ صائمہ کا انتقال گردے اور پیٹ میں شدید درد کی وجہ سے دوران حراست جیل میں ہی ہوا تھا۔ صائمہ ڈیڑھ سال قتل کے الزام میں جیل میں قید رہی۔

 

کیس کے فیصلہ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ریمارکس دئے کہ استغاثہ ملزمان پر جرم ثابت کرنے میں برح طرح ناکام رہا ہے اس لئے تمام گرفتار افراد کی فوری رہائی کا حکم دیا جاتا ہے۔

 

ایکسپریس نیوز کے مطابق صائمہ اور اسکے گھر والوں پر مقدمہ 2 سال سے زائد عرصہ تک چلا۔ رہائی کے بعد صائمہ کے گھروالوں کا کہنا تھاکہ پولیس کی مدد سے انکے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ بنایا گیا تھاکہ تاکہ صائمہ کی جائیداد پر قبضہ کیا جاسکے لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور جج نے ہمیں انصاف فراہم کیا لیکن افسوس صائمہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔

 

صائمہ اور اسکے خاندان کے وکیل محمد اکبر خان اور انکے ایسوسی ایٹ شیخ ثاقب احمد کا کہنا تھاکہ مقدمہ کے دوران صائمہ بار بار اپنی رہائی سے متعلق پوچھتی تھی۔ کاش ہم اسے بتاسکتے کہ وہ بے گناہ ثابت ہوگئی اور اسے رہا کردیا گیا ہے لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔

 

لیاقت آباد کی رہائشی خاتون صائمہ فرحان اور اسکے گھروالوں کے خلاف ستمبر 2019 میں عدالت کے حکم پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ صائمہ پر گھروالوں کے ساتھ ملکر اپنی دوست رخسار کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ صائمہ اور اسکے گھروالوں پر رخسار کی والدہ نے الزام عائد کیا تھا۔

 

لیاقت آباد کی رہائشی رخسار کی 24 فروری 2019 کو گھر میں طبیعت خراب ہوئی تھی اور اسپتال میں دوران علاج انتقال کر گئی تھی۔ رخسار اپنی دوست صائمہ سے دینی تعلیمات حاصل کرتی تھی جسکی بنیاد پر رخسار کی والد نے صائمہ فرحان اور اسکے گھر والوں پر قتل کا الزام عائد کیا۔

 

ابتداء میں ایس ایچ او لیاقت آباد پولیس اسٹیشن اور ایس ایس پی سینٹرل نے درخواست پر کوئی کاروائی نہیں کی لیکن ستمبر 2019 میں عدالت کے حکم پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ جس میں رخسار کی والدہ شہناز نے اپنی بیٹی کے قتل کا الزام اسکی دوست صائمہ فرحان ، صائمہ کی بہن ( نصرت ناز ) ، صائمہ کے بھائی ( محمد علی ، زاہد علی ) اور صائمہ کی بھابھی ( اسماء محمد علی ) پر عائد کیا۔ مقدمہ میں سیکشن 302 اور 34 مجموعہ تعذیرات پاکستان کی سنگین دفعات شامل کی گئیں۔

 

ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق مقدمہ دائر ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے حکم پر رخسار کے انتقال کے 8 ماہ اسکی قبر کشائی کی گئی اور لاش کے نمونے لئے گئے۔ لیکن نمونے 7 روز تاخیر کے بعد فرانزک لیبارٹری بھیجے گئے جبکہ قانون کے مطابق تفتیشی افسر کو 24 گھنٹوں کے اندر نمونے جمع کروانے تھے۔

 

پوسٹ مارٹم میں رخسار کی موت زنک فاسفائیڈ نامی زہر دینے کی وجہ سے ہونے کا انکشاف ہوا۔ لیکن رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ یہ ہرگز نہیں بتایا جاسکتا کہ رخسار کو یہ زہر کس نے اور کیسے دیا۔

 

مقدمہ میں صائمہ اور انکی بھابھی اسماء کو 14 فروری 2020 جبکہ دیگر افراد کو 18 فروری 2020 کو گرفتار کیا گیا۔ تمام افراد کی ضمانتیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ ، سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے مسترد ہوئیں۔

 

قتل کیس میں نامزد پانچوں ملزمان پر 6 فروری 2021 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے فرد جرم بھی عائد کی۔ ٹرائل کے دوران 10 گواہان کو پیش کیا گیا لیکن کوئی بھی قتل کا عینی شاہد نہیں تھا اور کوئی بھی صائمہ یا اسکے گھر والوں پر قتل کا جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا اور بلاآخر 10 جنوری 2022 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے تمام افراد کو بے گناہ قرار دے کر رہائی کا حکم دے دیا۔

 

 

Spread the love
جواب دیں
Related Posts