گزشتہ سال کراچی کے علاقے ڈیفنس سے ضبط کی جانے والے بیش قیمت بینٹلے ملسن کار کے حوالے سے کسٹمز اپیلٹ ٹربیونل لاہور نے فیصلہ کردیا۔ بینٹلے ملسن کار بلغاریہ کے سفارت خانے کے حوالے کردی۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق کسٹمز اپیلٹ ٹربیونل لاہور نے قرار دیا ہے کہ کسٹمز کی جانب سے گزشتہ سال کراچی سے ضبط کی گئی ’بینٹلے ملسن‘ لگژری کار ملک میں اسمگل نہیں کی گئی تھی بلکہ اسے اسلام آباد میں تعینات بلغاریہ کے سفیر کے نام پر درآمد کیا گیا تھا۔
کسٹمز اپیلٹ ٹربیونل نے لگژری کار کی ملکیت کے دعویدار کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر منگل کے روز جاری اپنے فیصلے میں کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ زیر تنازع گاڑی کو کسٹمز ڈپارٹمنٹ نے قانونی دائرہ اختیار کے بغیر ضبط کیا۔اپیلٹ ٹربیونل نے محکمہ کسٹمز کو حکم دیا کہ وہ گاڑی کو بلغاریہ کے سفارت خانے یا وزارت خارجہ کے حوالے کرے۔
دو رکنی اپیلٹ ٹربیونل چیئرمین عارف خان اور عبدالباسط چوہدری پر مشتمل تھا۔ ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چونکہ گاڑی برطانیہ سے چوری ہوئی اور این سی اے اس کی تحقیقات کر رہا ہے، ہمیں ابتدائی طور پر یہ انٹرپول کا کیس معلوم ہوتا ہے۔
اس طرح کے کیسز کی پاکستان میں نمائندگی قومی سنٹرل بیورو (این سی بی) اسلام آباد کی طرف سے کی جاتی ہے۔ فیصلے میں نوٹ کیا گیا کہ یہ کیس این سی بی کی جانب سے این سی اے کے ساتھ مل کر ہینڈل کیا جانا چاہیے تھا۔
ٹربیونل نے مزید کہا کہ ریکارڈ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ گاڑی کی ملکیت بلغاریہ کے سفارت خانے کے نام پر ہے، اس میں کہا گیا کہ سفارت خانہ گاڑی کی ملکیت سے انکار نہیں کرسکتی اور اگر گاڑی سفارت خانے سے چوری ہوئی تو ایف آئی آر درج کرائی جانی تھی یا سفارت خانے کو گاڑی کے معاملے کو ختم کرنا چاہیے تھا۔
ٹربیونل نے مزید کہا کہ اگر بلغاریہ کے سفارت خانے نے چوری کے حوالے سے برطانوی ایجنسی کی رپورٹ جاننے کے بعد گاڑی کی ملکیت سے انکار کیا تو گاڑی کو برطانوی حکام کے ساتھ مل کر مزید کارروائی کے لیے این سی بی کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا۔
ٹریبونل نے متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ وہ کار کو بلغاریہ کے سفارت خانے کے حوالے کریں کیونکہ وہ اس کا قانونی مالک ہے۔ فیصلے میں کہا گیا اگر سفارت خانے کی جانب سے زیر تنازع گاڑی اپنے قبضے میں لینے سے انکار کیا جاتا ہے تو اس بات کو تحریری طور پر درج کیا جائے اور گاڑی کو نیشنل کرائم ایجنسی (یو کے) کی رپورٹس کے ساتھ مزید ضروری کارروائی کے لیے وزارت خارجہ کے حوالے کیا جائے گا۔
ٹربیونل نے فیصلہ دیا کہ درخواست گزار جمیل شفیع کے پاس ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کی بنیاد پر گاڑی ریلیز کرانے کی درخواست کے لیے کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں چوری، ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی اور لگژری کار کی غیر قانونی رجسٹریشن کے الزامات کے تحت کسٹم حکام نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے ایک گھر پر چھاپہ مار کر لندن سے مبینہ طور پر چوری کی جانے اور سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ شدہ بینٹلے ملسن کار برآمد کرلی تھی۔
محکمہ ایکسائز پر 30 کروڑ روپے سے زائد کی ٹیکس چوری میں سہولت کاری کا الزام لگایا گیا جبکہ صوبائی حکومت نے لگژری گاڑی کو رجسٹر کیا تھا، وزارت خارجہ کی اجازت اور کسٹم کی جانب سے جاری کردہ این او سی کے بغیر کار کی درآمد کے وقت اس کی قیمت 4 کروڑ 14 لاکھ روپے ظاہر کی گئی تھی۔