سندھ ہائی کورٹ میں ڈی ایچ اے کراچی میں پانی کی عدم فراہمی کے معاملہ کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے روزانہ کی بنیاد پر پانی فراہم نہ کرنے پر ڈی ایچ اے ، کنٹونمنٹ بورڈ اور واٹر بورڈ حکام سے رپورٹ طلب کرلی۔
پانی چوری کرنے سے متعلق واٹر بورڈ حکام سے جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے کیس میں ریمارکس دیے کہ ڈی ایچ اے میں پانی کی فراہمی کا منظم طریقہ کار بنانا ہوگا۔
عدالت نے ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے وکلا سے مکالمے میں پوچھا کہ بتائیں، پانی چوری روکنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے؟ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ ڈی ایچ اے خود پانی فروخت کررہا ہے۔ واٹربورڈ کو پانی چوری روکنے کے لیے خطوط لکھے ہیں ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ واٹر ہائیڈرنٹس سے پانی بھرا جا رہا ہے، آپ کیا کر رہے ہیں؟ وکیل ڈی ایچ اے نے کہا کہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا ایشو درپیش ہے جس پرعدالت نے پوچھا کہ مسائل سے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ ہے آپ لوگوں کے پاس؟
جبران ناصر ایڈووکیٹ نے کہا کہ پانی ٹینکرز کے چارجز خلاف قانون وصول کیے جا رہے ہیں۔ رہائشیوں کو پانچ باوزر کے بجائے دو باوزر فراہم کیے جا رہے ہیں۔ پانچ باوزر کے پیسے کا حق نہیں مگر بھاری رقم لی جا رہی ہے۔
عدالت نے کنٹونمنٹ کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ لوگ باوزر کے سروس چارجز تک وصول کر رہے ہیں۔ باوزر سے سپلائی کرنے پر چارجز کو ایڈجسٹ کریں۔سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناعی میں توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی 17 اپریل کے لیے ملتوی کر دی۔