وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد پیش کی جہاں اپوزیشن کے 161 اراکین نے تحریک کی حمایت کی۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تحریک پیش کرتے کہا کہ قومی اسمبلی کے رولز اینڈ پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 ذیلی شق 4 کے تحت وزیراعظم کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پیش کر رہا ہوں۔
شہباز شریف کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد اراکین کی گنتی کی گئی جہاں حکومتی اتحادی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف اراکین ایوان میں موجود نہیں تھے۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے قرارداد منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 31 مارچ (جمعرات) شام 4 بجے تک ملتوی کردیا۔ جمرات کو قرارداد پر بحث کی گئی جائے گی۔ جسکے بعد عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرانے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔
قانون کے مطابق تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد 3 سے 7 روز کے اندر رائے شماری کرانی ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس میں بھی رائے شماری کرانے کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر 4 اپریل تک ہر حال میں عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کانی ہوگی۔
تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا طریقہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود وہ ارکان جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور ان کی تعداد کو گِن لیا جاتا ہے۔
اسی طرح وہ ارکان اسمبلی جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم عہدے پر برقرار رہیں ان کے پاس یہ چوائس ہوتی ہے کہ وہ اپنی نشستوں پر براجمان رہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اگر حکومت کا کوئی رکن اٹھ کر اپوزیشن کی جانب چلا جائے تو اس کی نشاندہی بھی ہوجائے۔ایسے رکن اسمبلی پر فلور کراسنگ کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے اور بات نا اہلی تک جاسکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اپوزیشن کو 172 ووٹ کی ضرورت ہے۔ 172 ارکان کی حمایت کی ضرورت میں وزیراعظم عمران خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے گا اور ساتھ ہی انکی پوری کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔ 172 ووٹ نہ آنے کی صورت میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور وزیراعظم اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔