سندھ ہائی کورٹ نے کراچی سے لاپتا ہوکر بہاولنگر سے بازیاب ہونے والی دعا زہرہ کی درخواست نمٹادی۔ عدالت نے اغواء کے شبہ کو رد کرتے ہوئے دعازہرہ کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی۔
سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کیس کا تین صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ بیان حلفی کی روشنی میں عدالت نے دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
فیصلے کے بعد دعا زہرہ اگر والدین کے ساتھ جانا چاہتی تو جاسکتی ہے اور اگر اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو رہ سکتی ہے انہیں اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کی اجازت ہے۔
عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام شواہد کی روشنی میں دعا زہرہ کے اغواء کا مقدمہ نہیں بنتا۔ عدالت نے کیس کے تفیشی افسر کو ضمنی چالان بھی جمع کرانے کا حکم بھی دے دیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے آگے کی کاروائی کیلئے کیس کو ٹرائل کورٹ منتقل کردیا اور فریقین کو ہدایت کی ہے کہ وہ مذید جو کہنا چاہتے ہیں ٹرائل کورٹ کے سامنے دلائل دیں۔
دعا زہرہ کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنے سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دعا زہرہ کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنا سندھ حکومت کی صوابدید ہے۔ عدالت نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے درخواست نمٹادی۔
واضح رہے دعا زہرہ کی عمر کے تعین کیلئے عدالتی حکم پر میڈیکل ٹیسٹ کرایا گیا تھا جس میں دعا کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان پائی گئی تھی۔ لیکن دعا کے والدین نے رپورٹ کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے چیلنج کیا تھا۔
عدالتی حکم پر دعا زہرہ کی آج دس منٹ کیلئے والدین سے بھی ملاقات کرائی گئی تھی جسکے بعد انکی والدین کا کہنا تھا کہ دعا زہرہ گھر جانے کیلئے راضی ہے اسکا دوبارہ بیان لیا جائے۔
دعازہرہ نے سندھ ہائی کورٹ میں پہلی پیشی میں بیان دیا تھا کہ وہ اپنے گھر سے مرضی سے گئی تھی اور ظہیراحمد سے بھی شادی بھی اپنی پسند سے کی۔ دعا نے جج کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہے۔