دکھی دلوں کا سہارا اور محسن انسانیت عبدالستار ایدھی کی آج برسی ہے۔ اور انہیں ہم سے بچھڑے 7 برس بیت چکے ہیں لیکن انسانیت کیلئے کئے گئے انکے فلاحی کام زندگی بھی کیلئے امر ہوچکے ہیں۔
عبدالستار ایدھی جنہوں نے جنگ عزیم دوم کی ایک کھٹارا وین کو خرید کر اسے ایمبولینس میں منتقل کیا اور پھر انکی یہ ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس میں بھی بنی جسے 1997 میں گینز ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا۔
عبدالستار ایدھی 29 فروری 1928 کو بھارت کی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے، انکا تعلق بانٹوا میمن کمیونٹی سے تھا جو قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔
پاکستان آنے کے بعد 1951 میں عبدالستارایدھی نے کراچی کے علاقے میٹھادر میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ڈسپینسری قائم کی۔ اور اپنی زندگی کو انسانیت کیلئے وقف کردیا۔
میمن ویلنٹئر کور کے نام سے بنائی گئی اس ڈسپینسری کا نام بعد میں تبدیل کرکے مدینہ ویلنٹئر رکھا گیا اور پھر بعد میں بدل کر ایدھی فاؤنڈیشن بن گیا۔
عبدالستار ایدھی نے نے 1952 میں ایک زچگی سینٹر اور 1954 میں نرسوں کی تربیت کے لئے ایک انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کیا اور 1966 میں اپنے نرسنگ ہوم کی ایک نرس بلقیس ایدھی سے شادی کی۔
عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی کی 6 دہائیاں دکھی انسانیت کی خدمت میں گزاریں، اسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بینک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے، ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی دکھی انسانیت کی خدمت سرانجام دے رہی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کا سپر ہائی وے پر ایک بڑا سینٹر موجود ہے، جہاں ٹی بی کے مریضوں کو بھی رکھا جاتا ہے۔ عبدالستار ایدھی نے اسی مقام پر اپنی زندگی میں ہی اپنی اور اپنی اہلیہ کیلئے قبریں بنوائیں اور پھر اسی مقام پر ہی عبدالستارایدھی کی تدفین کی گئی۔
کہا جاتا ہے عبدالستار ایدھی دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ رپورٹس کے مطابق انہوں نے 2400کے قریب ایمبولینسز، 3 ائیر ایمبولینس ،300ایدھی سنٹرز ، 8اسپتالوں اور خدمت خلق کیلئے وقف کر دی تھی۔
اپنی ساری زندگی ، اپنا سکون ، اپنا آرام ، اپنے اہل و عیال سب کچھ خدمت خلق کے لئے قربان کر دیئے او ردنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی اپنی آنکھیں انسانیت کی خدمت پر نچھاور کر دیں اور اس طرح انہوں نے اپنی آنکھیں عطیہ کر کے مرنے کے بعد بھی دکھی انسانیت کی خدمت کی۔
عبدالستار ایدھی گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور علالت کے باعث 8 جولائی 2016 کو 88 برس کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کرگئے، انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا، اور حکومت کی جانب سے ان کے انتقال پر ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان بھی کیا گیا۔
حکومت پاکستان نے 1980 کی دہائی میں انہیں نشان امتیاز سے نوازا، پاک فوج نے انہیں شیلڈ آف آنر کا اعزاز دیا، 1992 میں حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا جب کہ حکومت پاکستان نے انہیں بعد از مرگ بھی نشانِ امتیاز سے نوازا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے عبدالستار ایدھی اعزاز میں 50 روپے مالیت کا سکہ بھی جاری کیا۔ کراچی کے تاریخی ہاکی اسٹیڈیم کو بھی عبدالستارایدھی کے نام سے منسوب کیا گیا۔
عبدالستار ایدھی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی عالمی اعزازت سے بھی نوازا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے رومن میگسے ایوارڈ دیا اور 1993 میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا۔