عمران خان حکومت گرانےکی سازش کے مبینہ مراسلے کی تحقیقات کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار پر جرمانہ عائد کردیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ریماکس دیے کہ درخواست گزار نے کیبل کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو جرمانے کی رقم پندرہ روز میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ڈپلومیٹک کیبل کو متنازع بنا کر ریاست کے مفاد کو نقصان بنانے کی کوشش کی گئی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ ملک کے خارجہ امور سے متعلق معاملات انتہائی حساس ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت غیر معمولی دائرہ اختیار استعمال کر کے سماعت نہیں کی جا سکتی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پٹیشن میں دعوی مبہم، تائید میں دستاویز بھی پیش نہیں کی گئی کہ سفارتی کیبل کے موضوع پر کیس کا جواز پیش کیا جا سکے۔ پٹیشنرمتعلقہ ممالک کے پاکستانی سفارتکاروں کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی کیبل کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ سفارتی کیبلز بہت اہمیت کی حامل ہیں اور ان تک رسائی محدود ہوتی ہے۔ سفارت کاروں کو اس بات کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ ان کا تجزیے کو سنسنی خیز یا سیاسی نہیں بنایا جائے گا۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ سفارت کاروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے جائزے، تجزیے اورنتائج کو ان ممالک سے شیئر کریں جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ امریکی خط کی تحقیقات کے لیے دائردرخواست کے قابل سماعت ہونے پرفیصلہ محفوظ کیا تھا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے شہری ایڈووکیٹ مولوی اقبال حیدرکی درخواست پرسماعت کی۔
مولوی اقبال حیدرنے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ آٹھ مارچ کو اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔ وزیراعظم 27 مارچ تک معاملے پرخاموش رہتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو وزیراعظم کہتے ہیں یہ دھمکی آمیز خط ملا۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ خط نہیں کیبل تھا، خط میں اور کیبل میں فرق ہے؟
شہری ایڈووکیٹ مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ اخبارات، میڈیا میں ہرجگہ اسے خط لکھا جا رہا ہے جس پرچیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے آپ اسے کیوں سیاسی کرنا چاہتے ہیں؟وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ڈپلومیٹک کیبل کی امریکی حکام نے تردید کی۔ اس لیٹر کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے، آپ کیوں عدالت آئے؟ درخواست گزار نے کہا کہ میں چاہتا ہوں سیکریٹری داخلہ و دفاع کے ذریعے انکوائری کرائیں۔ سیکریٹری داخلہ پابند ہیں کہ وہ عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے مبینہ دھمکی آمیز خط کی تحقیقات کرائیں۔
مولوی اقبال حیدر نے کہا کہ وفاق کی ذمہ داری تھی کہ وہ معاملے کی تحقیقات کراتے اور معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے کرجاتے۔ عمران خان، فواد چودھری، شاہ محمود قریشی کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے نام بھی ای سی ایل میں شامل کیے جائیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ متعلقہ افراد کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے شکایت ٹرائل کورٹ کو بھجوانے کا حکم دیا جائے۔ اس سے پہلے پرویز مشرف نے بھی آئین شکنی کی تھی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار سے کہا کہ عمران خان منتخب وزیراعظم تھے پلیز مشرف کے ساتھ موازنہ نہ کریں۔