سندھ ہائی کورٹ میں کراچی میں چارجڈ پارکنگ کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے کے ایم سی کو پارکنگ کا ڈیٹا جمع کرنے کیلئے ویجلنس ٹیمیں تعینات کرنے اور ایک ماہ میں مکمل تفصیلات پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے کے ایم سی کے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ نے شہریوں کو بتایا ہے کہ کون سے مقامات پر چارجڈ پارکنگ ہوتی ہے؟
کے ایم سی کے وکیل نے عدالت کو بتایاکہ ڈی آئی جی ٹریفک کو اس حوالے سے خط لکھا ہے تفصیلات پیش کر دیں گے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کراچی میں نہیں معلوم ہوتا کون پیسے لینے کھڑا ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں تو 28 سڑکیں ہیں چارجڈ پارکنگ شہر بھر میں ہے۔
وکیل کے ایم سی نے کہا کہ جن سڑکوں پر زیادہ دباؤ ہوتا ہے وہاں چارجڈ پارکنگ ہوتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ رپورٹ میں شاہراہ فیصل اور ایم اے جناح روڈ لکھ دیا ہے۔ ان شاہراؤں پر کہاں اور کتنی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں؟ یہاں ڈبل اور ٹرپل پارکنگ ہوجاتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ روڈ کی چوڑائی کتنی ہے؟ پارکنگ کتنے حصے پر ہوتی ہے ؟ رانگ پارکنگ آپ خود کراتے ہیں آپ کا ایجنٹ کراتا ہے اسے کیسے ختم کریں گے ؟ کس سائٹ پر کس اوقات میں کتنی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں ؟
عدالت نے مذید ریمارکس میں کہا کہ اس پارکنگ سے آنے والی آمدنی کی تفصیل بتائیں۔ کبھی چیک کیا ہے ٹھیکیدار کتنا کما رہا ہے اور کے ایم سی کے پاس کتنی آمدنی آتی ہے؟
ڈائریکٹر پارکنگ کے ایم سی نے کہا کہ ٹھیکیدار ماہانہ بنیادوں پر رقم دیتا ہے۔عدالت نے کہا کہ شہر کے 31 مقامات کی آمدنی بہت کم دکھائی گئی ہے۔ سب سے مصروف طارق روڈ ہے اور وہاں یومیہ 9 ہزار روپے بتائے گئے ہیں مطلب صرف 464 گاڑیاں پارک ہوتی ہیں ؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ سال کا 32 ہزار کا ٹھیکہ دے رہے ہیں اور صرف 464 گاڑیاں پارک ہورہی ہیں ؟ یہ تو شہر کو لوٹنے کا عمل ہے۔ آپ چیک کرتے ہیں ٹھیکیدار کتنا کما رہا ہے ؟ جس پر کراچی میونسپل کارپوریشن کے وکیل نے کہا کہ اب جو نیلامی ہوگی وہ ڈیٹا کی بنیاد پر کریں گے۔
عدالت نے پارکنگ کا ڈیٹا جمع کرنے کیلئے ویجلنس ٹیمیں تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے تیس دن میں پارکنگ کا مکمل ڈیٹا اور آمدنی کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دے دیا۔