سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قانون بن گیا، نوٹیفکیشن جاری

عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نےپرنٹنگ کارپوریشن کو گزٹ نوٹی فکیشن کا حکم دے دیا ہے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری بیان کے مطابق مجلس شوریٰ (پارلیمان) کا سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 دستور پاکستان کی دفعہ 75 کی شق 2 کے تحت صدر سے منظور شدہ سمجھا جائے گا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اس بل پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ 13 اپریل کو سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں۔

ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔

حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت 2 مئی کو ہوگی، حکم امتناعی کا اجرا نا قابل تلافی خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے، صدر مملکت ایکٹ پر دستخط کریں یا نہ کریں، دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔

اس بل کی منظوری وفاقی کابینہ نے 28 مارچ کو دی تھی جس کے بعد 29 مارچ کو قومی اسمبلی اور 30 مارچ کو سینیٹ سے اس کو منظور کیا گیا تھا اور حتمی منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔

بعدازاں 10 اپریل کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے کچھ ترامیم کے ساتھ پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔

اس کے بعد اسے دوبارہ صدر مملکت کی منظوری کے لیے بھیجا گیا اور آئین کے مطابق 10 روز کے اندر بل پر دستخط نہ ہونے کی صورت میں وہ از خود منظور شدہ قانون بن جاتا ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینےکا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔

بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائےگا جب کہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔

آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر3 یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا جب کہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے۔

دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقرر ہوگی، زیر التوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینےکے 14 روزکے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔

Spread the love
Follow Times of Karachi on Google News and explore your favorite content more quickly!
جواب دیں
Related Posts