عام انتخابات 2024ء کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، اس ضمن میں سندھ کے حوالے سے دو پیش رفت انتہائی اہم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) صوبائی صدر شاہ محمد شاہ کو مرکزی نائب صدر بناکر بشیر میمن کو نیا صوبائی صدر مقرر کردیا گیا ہے۔
بشیر میمن کو پارٹی میں شامل ہونے کے بعد پہلا ٹاسک ملا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت یقینی بنائیں اور مشکل ترین حالات میں بشیر میمن نے اس ٹاسک کو بہت بہتر انداز میں مکمل کیا۔ ٹوٹ پھوٹ اور گروپ بندیوں کی شکار مسلم لیگ(ن) سندھ کے ہزاروں کارکنوں کو متحرک کرنے میں کامیاب رہے۔
بشیر میمن کا نام فی الحال مسلم لیگ(ن) نے میں گروپ بندی سے پاک ایک صاف شفاف ہے اور ابھی تک گروپ بندی کا رنگ ان پر نہیں چڑھاہے اور غالباً وہ اس جانب جائیں گے بھی نہیں ، بلکہ کسی مرحلے میں مشکل آئی تو پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ مسلم لیگ(ن) سندھ اس وقت جس بدترین گروپ بندی کا شکار ہے ، اس کا خاتمہ بشیر میمن کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگا اور پارٹی کے اندر کچھ لوگ اس کا خاتمہ بھی نہیں چاہیں گے۔ بشیر میمن اس گروپ بندی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تو ہیں مثبت نتائج ملیں گے ، ورنہ زیادہ دیر چلنا بہت مشکل ہے۔
اس ضمن میں بشیر میمن کو پارٹی کے قائد میاں محمد نواز شریف سے تین باتیں کرنی ہونگی کہ سندھ کی پارٹی سیاست میں مرکز اور پنجاب کی بے جا مداخلت بند ہونی چاہیے اور پنجاب کے صوبائی صدر کی طرح سندھ کے صدر کو مکمل بااختیار بنایا جائے، مزید یہ کہ ذاتی تعلقات اور مال و اسباب کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر صوبائی جنرل سیکریٹری کا انتخاب کیا جائے۔ ان اقدام کے بغیر بشیر میمن کے لیے پارٹی کو متحرک کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔
مسلم لیگ نواز سندھ کی ماضی قریب کی جماعتی سیاست کے حوالے سے سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل کا تجربہ نہ صرف ناکام رہا ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ نچلی سطح پر وہ پارٹی میں آج بھی جگہ نہیں بناسکے ہیں۔
سندھ کے حوالے سے دوسرا اہم سیاسی فیصلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ ہے۔
لاہور میں 7 نومبر کو ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے بعد ہونے والی گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں جماعتیں نہ صرف بعد از انتخاب مل کر چلنا چاہتی ہیں، بلکہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کرنا چاہتی اور اس ضمن میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔
اس ملاقات سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ نواز بالخصوص میاں محمد نواز شریف کو یہ ادراک ہوا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے، یہ ادراک میاں محمد نواز شریف اور انکے ساتھیوں کو از خود ہوا ہے تو قابل تحسین ہے، لیکن یہ ” مینیج” ہے تو پھر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
اصولاً سیاسی قیادت کو سیاسی فیصلے خود کرکے انکے مثبت اور منفی اثرات کی زمہ داری بھی خود قبول کرنی چاہیے اور یہی بات ہماری سیاست میں اداروں کی بے جا مداخلت کی تطہیر میں اہم ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سندھ کے شہری علاقوں کی ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے اور 2018ء میں اس کے ساتھ نہ صرف ناانصافی ہوئی بلکہ عملاً غیر اہم فیصلوں اور اقدام پر مجبور کیا گیا، جس کی وجہ سے 5 سال تک متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کھل کر کام نہیں کر سکی اور حامیوں کو ایک بڑی تعداد کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو سخت چیلنجز کا سامنا بھی ہے، بالخصوص ماضی کے ساتھیوں کی ایک کثیر تعداد اور قائد و حامیوں کے کا ردعمل اہم ہے۔
اسی طرح ایم کیو ایم پاکستان کے زیر اثر علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی بھرپور موجودگی بھی بہت بڑے چیلنجز ہیں۔
غالباً ایم کیو ایم پاکستان کو اس بات کا ادراک ہوا ہے کہ ان حالات میں تنہا پرواز فائدے میں نہیں رہے گی اور یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کا انتخاب کیا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے پاس پاکستان پیپلز پارٹی کا آپشن بھی موجود ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کا حامی سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل کی جڑ پیپلز پارٹی کو سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایک طویل عرصے سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، مگر کارکردگی کے حوالے سے سندھ کے شہری عوام بالخصوص کراچی کو مطمئن نہیں کرسکی ہے، اس پر پیپلز پارٹی کو بھی غور کرنا چاہیے۔
ان حالات میں ایم کیو ایم پاکستان کے پاس مسلم لیگ نواز واحد آپشن بچتا ہے اور اس کا انتخاب بہتر فیصلہ ہے۔
اس اتحاد کا فائیدہ دونوں کو ہوگا، کراچی کے کئی قومی اور صوبائی حلقوں میں ایم کیو ایم پاکستان کے لیے مسلم لیگ نواز معاون مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور اسی طرح مسلم لیگ نواز کے لیے چند جگہ ایم کیو ایم پاکستان معاون ثابت ہوگی۔
سندھ میں مسلم لیگ نواز کی انتخابی پوزیشن کافی کمزور لگ رہی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ بشیر میمن کا انتخاب دیہی سندھ میں کیا مثبت تبدیلی لاتا ہے، تاہم کراچی میں ایک سے 2 قومی اور 3 سے 4 صوبائی حلقوں میں ایم کیو ایم پاکستان کا تعاون اہم ہوگا۔
امکان یہی لگ رہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد بنانے کی کوشش کی جائے گی، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی حد تک مسلم لیگ نواز اور ایم کیو ایم پاکستان بھی شامل ہونگی، اگر ایسی کوئی صورت بنتی ہے تو شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کے لیے کافی مشکلات پیدا ہونگی۔
دیہی علاقوں کی حد فی الحال پیپلز پارٹی کی گرفت انتہائی مستحکم ہے، تاہم شہری علاقوں میں مشکلات ضرور ہیں۔
مسلم لیگ نواز اور ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی ایڈجسٹمنٹ بعد از انتخاب کے لیے سب سے اہم ہے اور یہ بھی کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں محمد شہباز شریف کے رویہ سے کافی مطمئن لگ رہی ہے۔
مجموعی طور پر یہ اتحاد دونوں جماعتوں کے فائدے میں رہے گا۔