کراچی کی رہائشی دعا زہرہ کا مبینہ اغوا کیس سندھ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ لڑکی کے والد نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کے بیان اور میڈیکل ٹیسٹ کی بنیاد پر فیصلہ سنایا جبکہ میڈیکل رپورٹ میں دعا زہرا کی عمر 17 سال بتائی گئی ہے۔ نادرا کے ریکارڈ اورتعلیمی اسناد کے مطابق دعا زہرہ کی عمر 14 سال ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنےکا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹادی تھی اور پولیس کو چالان جمع کرانے کی بھی ہدایت کی تھی۔
سولہ جون کو جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں پیش کئے گئے چالان میں پولیس نے دعا زہرہ کے اغوا کے شواہد نہ ملنے کا بتاتے ہوئے مقدمہ ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔
پولیس چالان میں بتایا گیا کہ اب تک کی تفتیش میں مغویہ دعا زہرا کے بیان کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ مغویہ اپنی مرضی سے پنجاب گئی تھی۔
چالان میں یہ بھی بتایا گیا کہ دعا زہرا کی عمر ایم ایل او رپورٹ کےمطابق 16 سے 17 سال ہے اوراس کا کم عمری میں اغواء کا جرم ثابت نہیں ہوتا ہے۔
دعا زہرہ کی شادی لاہور میں ہوئی اور یہ نکاح کراچی میں نہیں ہوا لہذا ملزمان پر سندھ چائلڈ ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا اوردعا زہرا اپنا بیان سندھ ہائیکورٹ اورعلاقہ مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کراچکی ہے۔
چالان کے مطابق اس کیس میں سیکشن 216 کا بھی اطلاق نہیں ہوتا اور کیس میں گرفتارغلام مصطفیٰ اور اصغر بے گناہ پائے گئے ہیں۔ دونوں ملزمان کو حراست میں رکھنا ناانصافی ہوگی لہذا ملزمان کو مقدمے سے ڈسچارج کرنےکا حکم دیا جائے اور لہذا کیس کو ختم کردیا جائے۔