جوڈیشل مجسٹریٹ کراچی شرقی کی عدالت میں دعا زہرہ کے مبینہ اغواء سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے دعا زہرہ کی عمر کے تعین کیلئے نیا میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دے دیا۔
دعا زہرہ کے والدین کے وکیل نے عدالت میں استدعا کی کہ پولیس کے چالان کا پورا انحصار صرف بچی کی عمر اور اسکے بیان پر ہے۔ عمر کے تعین کےلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دئے بغیر کیس ختم کرنا غیرقانونی ہے۔
دعا زہرہ کے والدین کے وکیل نے مزید کہا کہ 16 سالہ بچہ اگر اپنی مرضی سے بھی کسی کے ساتھ جاتا ہے تو وہ اغواء تصور ہوگا، نادرا ریکارڈ کے مطابق جب دعا زہرہ گئی ہے تو اس کی عمر 13 سال 11 ماہ اور کچھ دن تھی۔
سماعت کے دوران مدعی کے وکیل نے کہا کہ ملزم ظہیر کو بچایا جا رہا ہے تفتیشی افسر چاہتا ہے بچی 17 سال کی ہوجائے اور ملزم پر آنچ نا آئے۔
اس لئے لاہور میں مجسٹریٹ کے پاس دعا زہرا کے نام سے اس کے والد اور کزن کے خلاف ایک جعلی درخواست لگائی گئی، جوڈیشل مجسٹریٹ لاہور نے فری ویل سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا جس کے بعد دعا زہرا کا بیان ریکارڈ کرایا گیا۔
فاضل جج نے دلائل سننے کے بعد ریمارکس دیئے کہ میری سمجھ بوجھ کے مطابق سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔ کیس کی مزید تحقیقات اور میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا حکم دے دیتے ہیں۔ بچی کو یہاں لے کر آئیں یا وہاں میڈیکل کرائیں یہ استغاثہ کا مسئلہ ہے۔
دوران سماعت سرکاری وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ہمیں تو میرٹ پر کیس کو دیکھنا ہے، عدالت از سر نو تفتیش کا کہہ دے یا میڈیکل بورڈ کا حکم دے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
دوسری جانب کیس کے تفتیشی افسر شوکت شاہانی نے دعا زہرہ کے مبینہ شوہر ظہیراحمد کو بے گناہ قرار دے دیا۔ سٹی کورٹ کے باہر میڈٰیا سے گفتگو میں تفتیشی افسر نے کہا کہ ظہیر کے خلاف کوئی شواہد نہیں ملے۔
ظہیر پر اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا، ظہیر کو ہم نے حفاظتی تحویل میں لیا لیکن لڑکی بیان کے بعد ظہیر پر اغوا مقدمہ نہیں بنتا۔ ہم نے کیس میں ہر پہلو پر تفتیشی کی ہے، لڑکی اپنی مرضی سے گئی ہے، سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی سامنے آنے بعد مزید جائزہ لیا جائے گا۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ دعا زہرہ اور ظہیراحمد کی معروف آن لائن ویڈیو گیم پب جی کے زریعے دوستی ہوئی تھی، وہیں نکاح کی بات ہوئی تھی، کیس بنتا ہی نہیں۔