الیکشن کمیشن نے 30 نومبر 2023 کو رات 12 بجے کے قریب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حتمی حلقہ بندی 2023 جاری کردی ہے، مجموعی طور پر ڈرافٹ حلقہ بندی کے مقابلے میں حتمی حلقہ بندی میں اضلاع کے کوٹے میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے، تاہم درجنوں حلقوں میں لوگوں کے اعتراضات قبول کرلئے گئے ہیں۔
سندھ کے ضلع ٹھٹھہ اور سانگڑھ کے کم ہونے والے صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا رد و بدل اور دیگرحلقوں کی ڈیموگرافی میں ہلکی پھلکی تبدیلی عدالت میں چیلنج ہونے کا امکان ہے، 2018 کی طرح سپریم کورٹ نے تمام اپیلوں کو یکسر ناقابل سماعت قرار نہیں دیا یا عدالتوں نے ہنگامی بنیادوں پر فیصلے نہیں کئے اور اسٹے آدر دئے تو درجنوں حلقوں میں عام انتخابات 2024میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔
ڈرافٹ اور حتمی حلقہ بندی جائزے مطابق سندھ بھر بالخصوص کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں پیپلزپارٹی کے اعتراضات کو قبول کیا گیاہے، جس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ملنے کا امکان ہے۔
سندھ درجنوں حلقوں میں اعراضات جمع کئے گئے تھے اور سب بڑا اعتراضات خلاف معمول شکار پور کی جگہ سانگڑھ سے قومی اسمبلی کی نشست کی کمی کا معاملہ تھا۔ اضلاع کے کوٹے کے مطابق شکار پور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہوکر کراچی کے ضلع جنوبی منتقل ہورہی تھی، مگر خلاف معمول سندھ کے 3 اضلاع جیکب آباد، شکار پور اور کشمور کندھ کوٹ کو ملاکر کوٹہ نکلا گیا، اس طرح کمی کا اثر ضلع سانگڑھ پر پڑا اور سانگڑھ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہوئی ، یہ سندھ کا سب سے بڑا اپ سیٹ تھا، اس کو مختلف امیدواروں چیلنج کیا ،مگر حتمی فہرست میں انکے اعتراضات کو قبول نہیں کیا گیا ہے۔
اسی طرح ضلع سانگڑھ سے کم ہونے والی صوبائی اسمبلی کی نشست میں بھی ڈرافٹ اور حتمی فہرست میں رد و بدل ہوئی ہے، یہی پوزیشن ضلع ٹھٹھہ سے کم ہونے والی صوبائی اسمبلی کی نشست کی بھی ہے، خدشہ ہے کہ معاملہ عدالتوں میں جائے گا۔
ضلع حیدر آباد اور میرپور خاص کے حلقوں میں ڈرافٹ اور حتمی حلقہ بندی فہرستوں میں کافی تبدیلی ہے، یہاں پر پیپلزپارٹی کے اعتراضات کو قبول کیا گیا ہے۔
کراچی کے ضلع ملیر، ضلع جنوبی اور ضلع غربی میں بھی پیپلزپارٹی کے اعتراضات قبول کئے گئے ہیں۔ بظاہر ڈرافٹ فہرست کے مقابلے میں حتمی فہرست پورے سندھ بالخصوص کراچی میں پیپلزپارٹی کے لئے زیادہ بہتر ہے۔
ساتویں اور پہلی ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے مطابق قومی اور صؤبائی اسمبلیوں میں صوبوں کی مجموعی نشستوں اور صوبوں کا کوٹہ آئین کے آرٹیکل 51 اور106 کے مطابق پہلے سے طے ہے۔ الیکشن کمیشن اسی کے مطابق حلقہ بندی کرنے کا پابند ہے۔
قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے 266 حلقوں میں سے پنجاب کے 141، سندھ کے 61 ، خیبر پختونخوا کے 45 ، بلوچستان کے 16 اور اسلام آباد کے 3 حلقے ہیں۔ اسی کوٹے کے مطابق نئی حلقہ بندی ہوئی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 106 کے مطابق صوبائی اسمبلی کی جنرل 593 نشستوں میں سے پنجاب کی 297 ، سندھ کی 130، خیبر پختونخوا کی 115 اور بلوچستان کی 51 نشستیں آئین میں طے ہیں اور اسی کے مطابق حلقہ بندی ہوئی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 51 مطابق کے قومی اسمبلی کا ایوان مجموعی طور پر 336 ارکان پر مشتمل ہے، جس میں 266 جنرل، 10 اقلیت اور 60 خواتین کی نشستیں ہیں۔ خواتین کی 60 مخصوص نشستوں میں سے پنجاب کی 32، سندھ کی 14 ، خیبرپختونخوا کی10 اور بلوچستان کی4 مخصوص نشستیں ہیں۔
آئین کے ارٹیکل 106 کے مطابق صوبائی اسمبلیوں میں سے پنجاب اسمبلی کے 371 رکنی ایوان میں297 جنرل، 66 خواتین اور8 اقلیتی، سندھ اسمبلی کے 168 رکنی ایوان میں 130 جنرل ، 29 خواتین اور 9 اقلیتی، خیبر پختونخوا اسمبلی کے 145 رکنی ایوان میں 115 جنرل، 26 خواتین اور 4 اقلیتی اور بلوچستان اسمبلی کے 65 رکنی ایوان میں 51 جنرل، 11 خواتین اور 3 اقلیتی مخصوص نشستیں ہیں۔