تحریک عدم اعتماد،از خود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی، ” آج کیس ختم نہ کرنے پر معذرت خواہ ہوں” چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ آج بھی نہیں ہوسکا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ اہم کیس ہے وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ آج کیس مکمل نہ کرنے پر معذرت خواہ ہوں ۔ کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے کی جائے گی۔



چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجربینچ نےکیس کی سماعت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے آج دلائل دئے۔ عدالت عظمیٰ کے روبرو بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت کا مشکور ہوں کہ قوم پر مہربانی کرتے ہوئے نوٹس لیا۔ عدالت کو کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی اور غیرآئینی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ آرٹیکل 5 کے ذریعے کسی کو غدار کہا گیا ہے۔


 درخواست گزاروں نے عدالت سے آرٹیکل 95 اور 69 کی تشریح کی استدعا کی۔ شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ درخواست گزار جماعتیں چاہتی ہیں کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں دیا گیا حوالہ نظر انداز کیا جائے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ عدالت ان کے حق میں فوری مختصر حکمنامہ جاری کرے۔ کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے آئین سے کیا جا سکتا ہے؟


دلائل جاری رکھتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ کیس میں لاگو نہیں ہوتا، کیا سندھ ہاؤس اور آواری ہوٹل لاہور میں جو کچھ ہوا اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ اراکین اسمبلی کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا۔


آرٹیکل چار غیرملکی شہریوں کو بھی وہی حقوق دیتا ہے جو پاکستانیوں کے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں غیر ملکیوں کو ایسے حقوق نہیں دیئے گئے۔ عدالت میں زیر سماعت مقدمہ بنیادی حقوق کا نہیں ہے۔ تمام شہریوں پر لازم ہے کہ ریاست کیساتھ وفا دار رہیں۔


اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں۔ انہوں وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے۔ یہ بھی بتائیں کیا اسپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں۔؟


انہوں نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع لازمی کریں لیکن ٹھوس مواد پر کریں۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میٹنگ کے منٹس دیکھ کر ہی کچھ بتا سکیں گے کہ کیا ہوا۔ اجلاس کے منٹس آ چکے ہیں عدالت کو دیئے جائیں گے۔ عدالت نے متنازع الزامات پر نہیں جانا۔


لاجر بینچ کے روبرو بابر اعوان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ سطح کے سفارت کار نے دوسرے ملک کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کا پیغام تین افراد کو پہنچایا۔ ایمبیسی کے ذریعے ہیڈ آف مشن، ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور دفاع اتاشی کو پیغام دیا گیا۔


ہمارے سفارت کاروں کی بیرون ملک ملاقات کے بعد سات مارچ کو مراسلہ آیا۔ مراسلے میں چار چیزیں سامنے آئیں۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت زیادہ تفصیلات نہیں دے سکتا۔ فارن آفس نے مراسلہ دیکھ کر وزیراعظم اور وزیر خارجہ کیساتھ میٹنگ کی۔ کابینہ کی میٹنگ میں متعلقہ ڈی جی نے مراسلے پر بریفننگ دی تھی۔


 


چیف جسٹس نے سوال کیا کہ وفاقی کابینہ کی میٹنگ کب ہوئی تھی؟، بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ کابینہ اجلاس کی تاریخ معلوم کر کے بتاؤں گا۔ کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہوسکتی ہیں؟


فارن آفس نے جو بریفننگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ جواباً چیف جسٹس نے کہا کہ فی الحال خط نہیں مانگ رہے۔ عدالت نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال ایسا کچھ نہیں ہے کہ ان کیمرا سماعت کریں۔


 بابراعوان نے عدالت کو بتایاکہ  نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ نے سفارتی احتجاج کا فیصلہ کیا۔ کونسل نے قرار دیا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی۔ اس موقع پر بابر اعوان نے ترجمان پاک افواج کی نجی ٹی وی سے گفتگو بھی عدالت میں پیش کی۔


بابر اعوان نے مزید کہا کہ ترجمان پاک افواج نے کہا قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کے اعلامیہ سے متفق ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفننگ پر کیا فیصلہ کیا؟، جس پر پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ مراسلے میں کہا گیا تھا کہ دوسرا ملک ہمارے وزیراعظم سے خوش نہیں ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ مناسب ہوگا کہ خارجہ پالیسی پر بات کسی سیاسی جماعت کا وکیل نہ کرے۔ جتنا رولنگ میں لکھا ہوا ہے اتنا ہی پڑھا جائے تو مناسب ہوگا۔


بابر اعوان نے کہا کہ مراسلے میں کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کیا نتائج ہونگے۔ جس پر عدالت نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ یہ باتیں اسپیکر کے وکیل کو کرنے دیں، انہوں نے سوال کیا کہ کابینہ نے کیا فیصلہ کیا یہ بتائیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاست کے ساتھ وفادار ہونا لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو وفادار نہیں اس کیخلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے۔ جو لوگ غیرملک سے ملکر تحریک عدم اعتماد لائے ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟۔ کیا قومی سلامتی کمیٹی نے کارروائی کی کوئی تجویز دی؟۔


معزز عدالت کے سامنے وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ وزیراعظم، کابینہ اور کمیٹی سب نے احتیاط سے کام لیا ہے۔ پاکستان سب سے پہلے ہے اس لئے جواب دینے میں بھی محتاط ہوں۔ حکومت نے کسی کو غدار قرار نہیں دیا۔ عدالت نے تین اپریل کے حکمنامہ میں امن و امان کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ دوسری اہم چیز عدالتی حکم میں غیرآئینی اقدامات سے روکنا تھی۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم میں زیادہ اہم چیز ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت تھی۔ ہم اسپیکر کی رولنگ اور آرٹیکل 69 پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ واقعاتی شواہد دے رہے ہیں کہ یہ ہوا تو یہ ہوگا۔ ان تمام واقعات کو انفرادی شخصیات سے کیسے لنک کرینگے۔ جسٹس عمر بندیال کا کہنا تھا کہ ایک بج گیا ہے کیس ختم کرنا چاہتے ہیں۔


دو دن ایک سائڈ کے وکلاء نے لے لیے ہیں۔ جس پر تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ اسپیکر کا معاملہ ہے تو پھر پہلے ان کے وکیل کو بات کرنے دیں۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر عمران خان کمیشن بنانا چاہتے ہیں تو مطلب ہوا کہ انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے۔ جس پر وکیل نے بتایا کہ وزیراعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے۔ وزیراعظم تفتیش کار نہیں اس لئے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے۔ میمو کیس ابھی بھی زیر التواء ہے۔ حقائق متنازع ہوں تو اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔


عدالتی ریمارکس کے جواب میں تحریک انصاف کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ پارلیمان کے اپنے رولز ہیں وہ کوئی قانونی چارہ جوئی کا ادارہ نہیں۔ اسپیکر کی عدم موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر بطور اسپیکر فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اسد قیصر کیخلاف تین اپریل کو مرتضیٰ جاوید عباسی نے تحریک عدم اعتماد کا نوٹس دیا۔


پشتون کلچر میں غیرت مندی سب سے اوپر ہوتی ہے۔ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کا نوٹس آنے پر ہی اجلاس کی صدارت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ قانونی طور پر اسپیکر اجلاس کی صدارت کرنے کے اہل تھے۔ جس پر جسٹس منیب نے کہا کہ اسپیکر مرضی سے نہ اجلاس میں آئے تو اسے غیر حاضر نہیں کہا جا سکتا۔


بابر اعوان نے کہا کہ رولز میں لکھا ہے کہ اسپیکر کسی بھی وجہ سے نہ ہو تو ڈپٹی اسپیکر صدارت کرینگے۔اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے حلف میں لکھا ہے کہ جب انہیں اسپیکر کا کام کرنے پڑے۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ تکنیکی نقطہ ہے، اس کا جواب بہتر ہوگا اسپیکر کے وکیل دیں۔


رکن اسمبلی کیلئے دیانت دار ہونا ضروری ہے۔ ایک اپوزیشن جماعت کے رہنما نے کہا ہاں ہم نے ہارس ٹریڈنگ کی ہے۔ لاہور میں 40 پی ٹی آئی ارکان کو ہوٹل میں بند رکھا گیا۔ تین اراکین نے نکلنے کی کوشش کی تو گارڈز نے انہیں مارا۔ اپنی ساٹھ سالہ زندگی میں ایسا واقع کبھی نہیں دیکھا۔ پہلے دن استدعا کی تھی کہ صدارتی ریفرنس پر بھی ساتھ ہی سماعت کی جائے۔


اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست میں داد رسی کیا ہو سکتی ہے؟۔ جس پر بابر اعوان نے کہا کہ عوام کے پاس جانے سے ہی سیاسی جماعتوں کی داد رسی ہو سکتی ہے۔ آرٹیکل ز63 اے کے تحت نشست خالی ہوگی۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ فلور کراسنگ ہر جماعت کیساتھ ہوتی رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ لوگ انہیں کیوں چھوڑ کر جاتے ہیں۔ وہی چہرے ہر بار ایک سے دوسری جگہ نظر آتے ہیں۔


پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ایک الیکشن کے نتیجہ میں ملک دولخت ہوگیا، شفاف الیکشن نہیں ہوسکے۔ انڈیا، بنگلہ دیش اور فلپائن نے ای وی ایم کے ذریعے شفاف الیکشن شروع کیے۔ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں ای وی ایم کو تسلیم نہیں کر رہی۔ عدالت نے ڈیڈلاک اور غیرسیاسی مداخلت روکنے کیلئے سوموٹو لیا تھا۔ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہے۔ وہ فیصلہ کرینگے جو عوام کے مفاد اور سب پر ماننا لازم ہوگا۔


بابر اعوان نے کہا کہ قرآن کریم میں واضح ہے کہ حق سے پھرنے والا تباہ ہو جاتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ تم سے پہلے قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ طاقتور کیلئے قانون اور تھا اور کمزور کیلئے اور۔ اللہ سب پر راضی رہے اس ملک کا واحد حل انتخابات ہیں۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل مکمل کرلئے


پی ٹی آئی کے وکیل کے بعد صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل کا آغاز ہوا۔ صدر مملکت نے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کر دیا۔


علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے دلائل کا آغاز کروں گا۔ آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے۔ آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔


بیرسٹرعلی ظفرنے کہا کہ آئین میں پارلیمان اورعدلیہ کی حدود متعین کی گئی ہیں،آئین کا پہلا اصول ہے کہ پارلیمان عدالتی کارروائی میں مداخلت نہیں کرے گی اوردوسرا اصول ہے کہ عدالت پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ علی ظفر نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کےخلاف عدالت سے رجوع کرنا پارلیمنٹ میں مداخلت ہے،اسپیکرکودی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کوہدایات دینا ہوگا جوغیرآئینی ہے۔


اس پرچیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی؟ اس پر بیرسٹرعلی ظفرنےکہا کہ کیا غیرآئینی ہے اورکیا نہیں اس پربعد میں دلائل دوں گا۔


علی ظفر نے بتایا کہ عدالت پارلیمان کے منظورکردہ قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے تاہم پارلیمنٹ کے فیصلوں میں عدالت مداخلت نہیں کرسکتی،اسپیکرکوئی غلط فیصلہ کرے تو پارلیمنٹ کے اندر ہی اس کا فیصلہ ہوسکتا اوراسپیکر کی رولنگ کو ایوان تبدیل کرسکتا ہے،اگر ایوان اسپیکر سےمطمئن نہ ہو توعدم اعتماد کرسکتا ہے۔


بیرسٹرعلی ظفرنےکہا کہ اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تواسپیکرکاہرفیصلہ ہی عدالت میں آئے گا،عدالت کواسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔


جسٹس اعجازالاحسن نےاستفسارکیا کہ کیا وزیراعظم کی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ اس پر بیرسٹرعلی ظفرنےبتایا کہ اگراسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس رولنگ کے نتیجہ میں ہے تو جائزہ نہیں لیا جا سکتا،آرٹیکل 5 نہ ہو تو بھی ہر شہری آئین پرعملدرآمد کا پابند ہے


 


 


 


 

Spread the love
جواب دیں
Related Posts