آنکھیں انمول تحفہ اور بینائی عظیم نعمت ہے۔ جس سے دنیا کے حسین نظارے و مناظر ذہن نشین کیے جاسکتے ہیں اور اگر قوت بینائی نہ ہو تو زندگی بے رونق اور اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
ضلع ملیر، کالابورڈ بی ایریا کے رہائشی تین بھائی بینائی سے محروم ہیں۔ شاہد حسین کی عمر پینتالیس سال اور وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں جو ایک حادثے کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتے۔ شاہد حسین زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلانے کیلئے پانی سے بھرے غبارے بیچنے پر مجبور ہیں ۔ آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے جس سے بامشکل گھر کا چولہا جلتا ہے۔
اپنی تلخ کہانی سناتے ہوئے شاہد حسین کا کہنا ہےکہ بچپن میں محلے کے ایک لڑکے نے سر پر لوہے کی راڈ ماردی جسکی وجہ سے بینائی چلی گئی۔۔ علاج و معالج دونوں سے افاقہ نہیں ہوا۔ والدین کے انتقال کے بعد گھر کے اخراجات اٹھانے کیلئے واٹر بال بیچنے کا کام شروع کیا جسمیں کبھی پیسے مل جاتے ہیں اور کبھی خالی ہاتھ واپسی ہوتی ہے۔
محلے میں جاکر بیچتے وقت علاقہ مکینوں کی گالیاں بھی سننےکو ملتی ہیں۔ باعث اوقات بچوں سمیت بڑے بھی جعلی نوٹ دیکر بے وقوف بناتے ہیں۔ شاہد حسین کی خواہش ہے کہ آنکھوں کی بینائی دوبارہ سے بحال کرنے میں کوئی مدد کردے تاکہ کوئی متبادل روزگار کا انتظام ہوسکے۔
چھوٹے بھائی محمد حسین اور فیصل حسین بھی معاشی تنگی کے ساتھی اور دونوں بھی آنکھوں کی روشنی کھو چکے ہیں۔ فیصل حسین ایک ہوٹل میں برتن دھویا کرتے تھی لیکن نکال دیئے گئے مجبوراً گلی محلوں میں سیو نمکو بیچنے کا کام شروع کیا۔
نابینا ہونے کی وجہ سے آئے دن ٹریفک حادثات سے بھی دوچار رہنا پڑتا ہے۔ فیصل حسین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے مصالحہ اور سیو خریدنا آسان نہیں رہا ، جو چیز پانچ سو میں مل جایا کرتی تھی اب اسکو خریدنے کیلئے مزید پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
ذریعہ معاش کے حصول میں بچے اہم رکاوٹ بن جاتے ہیں جو بہانے بہانے سے تنگ کرتے رہتے ہیں۔ افسوس اس بات کا رہتا ہے ایک بھائی کم عمری میں گم ہوگیا جو آج تک نہیں ملا جبکہ ایک نشے کی لت میں زندگی کی بازی ہار گیا۔ اب یہی امید ہے کہ فرشتہ صفت انسان ہماری زندگی میں روشنی لے آئے۔
گھر کا سودا سلف خریدنا اور پکانے کے انتظامات نرگس فاطمہ کرتی ہیں جو کم عمر ہونے کے باوجود سب کی بڑی بن گئیں۔ شادی شدہ ہیں اور انکا شوہر بھی خود معاشی طور پر مسحتکم نہیں۔ حیدرآباد سے آکر اپنے بھائیوں کی دیکھ بھال کیلئے آدھی زندگی گزار دی ہے۔
نرگس فاطمہ کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں گزرا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ بچوں اور اپنا دل مار کے گھر چلانا پڑ رہا ہے۔ بھائیوں کی محنت کی کمائی اتنی نہیں ہوتی کہ بل کی ادائیگی کرسکیں یا دو وقت کی روٹی کھائیں۔
ایسی صورتحال کا سامنا بھی رہا جب بھوکا بھی سونا پڑا۔ خوف اس بات کا رہتا ہے کہ کہیں مہنگائی دوبارہ سے غربت کے پرانے وقتوں میں پہنچا نہ دے۔ کچھ ایسے حالات کا ذکر بھی کیا کہ بڑے بھائی کی حالات زار دیکھ کر ایک جاننے والے نے ایک ہزار روپے دیئے جو معجزے سے کم ثابت نہیں ہوئے۔