سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن سے 460 ارب روپے کی وصولی کے کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا تو خطرناک نتائج ہوں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کی سماعت ہوئی۔ بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین شامل ہیں۔ عدالت میں سندھ حکومت اور ملیرڈولمپنٹ اتھارٹی کی متفقہ درخواست دی گئی کہ رقم سندھ حکومت کو دی جائے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لگتا ہے سندھ حکومت اور ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی کی دوستی ہوگئی ہے، رقم کا ایک حصہ بحریہ ٹاؤن نے جمع کرایا دوسرا بیرون ملک سے آیا۔ ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی اور سندھ حکومت دونوں کہتے تھے پیسے انہیں دیے جائیں اب دونوں کا اتفاق ہے کہ رقم سندھ حکومت کو منتقل کی جائے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ایم ڈی اے نے بحریہ ٹاؤن کو تمام متعلقہ منظوریاں دی تھیں؟ جس پر ملیر ڈولمپنٹ اتھارٹی کے وکیل نے کہا کہ سولہ ہزار 896 ایکڑ کے مطابق لے آئوٹ پلان کی منظوری دی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی نے قانونی عمل کے بغیر زمین کیسے بحریہ ٹائون کے حوالے کر دی؟ زمین عوام کی تھی ایم ڈی اے کی ذاتی نہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل سلمان بٹ سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ بحریہ ٹاون کراچی کا پراجیکٹ ختم ہو جائے ؟ 2019 سے فیصلہ ہوا ہے اور ہمیں آج بحریہ ٹاون کا نقشہ دکھا رہے ہیں۔
کسی نے بحریہ ٹاون کے سر پر بندوق رکھی تھی کہ فیصلے کو تسلیم کرو؟ جو آپ کر رہے ہیں یہ بالی وڈ یا لالی وڈ میں قابل قبول ہوگا آئینی عدالت میں نہیں قابل قبول نہیں۔ یہ اچھا ہے کہ معاہدے کے تحت پیسے نہیں دینے تو بہانے بناؤ
چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سے سلمان بٹ سے استفسار کیا کہ آپ فیصلے کے تحت ہوئے معاہدے کے مطابق رقم ادا کریں گے؟ ہاں یا ناں؟ جس پر وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ اگر زمین کی قیمت کا تخمینہ دوبارہ لگا لیا جائے تو میں ادائیگی کرنے کو تیار ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کرنا، فیصلے پر عمل نہ کرنے کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے سے نیب بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف کاروائی کرے گا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آج میں نے دو چیزیں سیکھ لیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نظر انداز ہو سکتا ہے اور فیصلہ معاہدہ ہوتا ہے، یہ بتا دیں کہ عدالت کس قانون کے تحت اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کرانے بیٹھی ہے؟
وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے اصل دائرہ اختیار کے تحت ہی فیصلے پر عملدرآمد کرا سکتی ہے جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہ اس عدالت کے فیصلے اور دائرہ اختیار کے تقدس کو پامال نہ کریں۔
چیف جسٹس نے بحریہ ٹاأن کے وکیل سے کہا کہ آپ اپنے موکل ملک ریاض سے ہدایات لینگے، ہوسکتا ہے ملک ریاض کہیں کہ ان کا بیٹا اور اہلیہ بالغ ہیں اور اپنا فیصلہ خود کرینگے۔
عدالت کا کہنا تھا مشرق بنک کے وکیل کے مطابق رقم بھیجنے والی تفصیل ڈیٹا ملنے پر ہی فراہم کی جا سکتی ہے، مشرق بنک متعلقہ معلومات ملنے پر رقم بھیجنے والے کی تفصیلات فراہم کرے۔
عدالت نے سندھ حکومت سے بحریہ ٹاؤن کے زیرقبضہ زمین کی رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ بحریہ ٹائون اور ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی بھی شواہد کیساتھ رپورٹ پیش کرے۔ عدالت نے سندھ حکومت، ایم ڈی اے کو زمین کا سروے کرانے کا حکم دیدیا
عدالتی حکم کے مطابق بحریہ ٹائون کا نمائندہ بھی سروے ٹیم کے ہمراہ ہوگا۔ سروے میں سرکاری زمین پر بحریہ ٹائون کے قبضے کے الزمات کا بھی جائزہ لیا جائے، عدالت نے محمود اختر نقوی کو بھی سروے ٹیم کا حصہ بنا دیا۔ عدالت نے سروے رپورٹ 23 نومبر کو پیش کرنے کا حکم دیدیا
عدالت نے 190 ملین پائونڈ اور بحریہ ٹائون سے متعلق درخواستیں 23 نومبر کو مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 23 نومبر تک ملتوی کردی۔