Search
Close this search box.
Uncategorized @ur

محقق و مصنف،معروف علمی شخصیت شیخ الحدیث مولانا محمد انور بدخشانی کا انتقال فرماگئے

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے شیخ الحدیث بلند پایہ محقق و مصنف،مفسر قرآن مولانا محمد انور بدخشانی تقریباً 92 برس کی عمر میں 12 اگست کی شب کراچی کے مقامی ہسپتال میں انتقال کر گئے ،جامعہ بنوری ٹائون میں میں ان کے نماز جنازہ اور جامعہ دارلعلوم کراچی میں تدفین میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔

میڈیا کوآرڈینیٹر وفاق المدارس العربیہ مولانا طلحہ رحمانی کے مطابق مولانا مرحوم بلند پایہ محقق و مصنف،مفسر قرآن و شیخ الحدیث تھے۔آپ کی پیدائش 1932ء میں افغانستان کے صوبہ بدخشان کے شہر وردوج کے قریب زردیو کے علاقہ میں ہوئی،آپ کے والد مرحوم مرزا محمد ایک نیک سیرت تھے،آپ کے خاندان میں دینی رجحان بہت زیادہ تھا اور علاقہ بھر میں علمی و دینی حوالہ سے ممتاز تھا،آپ کے چچا مولانا محمد شریف مرحوم جامعہ امینیہ دھلی سے فارغ التحصیل تھے اور فقیہہ وقت مفتی کفایت اللہ کے شاگرد تھے جنہوں نے درس نظامی سے فراغت کے بعد اپنے آبائی علاقہ میں درس و تدریس کا آغاز کیا۔

مولانا محمد انور بدخشانی مرحوم نے 12 سال کی عمر میں قرآن کی تعلیم کا آغاز کیا،15برس کی عمر میں اپنے مرحوم چچا مولانا محمد شریف کی نگرانی میں فارسی اور اپنی ابتدائی دینی تعلیم کا مرحلہ مکمل کیا۔اس کے بعد افغانستان کے علاقہ تخار میں6 سال تک درس نظامی کے دیگر علوم وفنون کی تعلیم کا مرحلہ مکمل کیا،یہاں آپ کے اساتذہ میں علوم و فنون کے ماہر مولانا عبد الجلیل تخاری،شیخ محمد امین،مولانا شیخ خلیل الرحمٰن،شیخ محمد اسماعیل،شیخ محمد یوسف البدخشانی شامل تھے۔

اس کے بعد1965ء میں پاکستان آئے یہاں انجمن تعلیم القرآن کوہاٹ،جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک اور دارالعلوم اسلامیہ سیدو شریف میں مولانا شیخ عبد الغفار،مولانا احمد گل،مولانا نعمت اللہ، مولانا یوسف بونیری، مفتی محمد فرید،شیخ فضل الہی، شیخ جان عالم،شیخ عبداللہ کوہستانی،شیخ مولانا بہادر مارتونگ،شیخ لطافت الرحمن اور شیخ عبدالمجید جیسی علمی ہستیاں آپ کے اساتذہ میں شامل تھیں۔

مولانا مرحوم 1968ء میں کراچی آئے ۔جہاں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں درس نظامی کے آخری دو درجوں کی تکمیل کی اورمحدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری،مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی،مولانا محمد ادریس میرٹھی، مولانا فضل محمد سواتی،مولانا بدیع الزمان،مولانا سید مصباح اللہ شاہ آپ کے حدیث کے اساتذہ تھے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی، مہتمم دارالعلوم دیوبند حکیم العصر مولانا قاری محمد طیب،شام کے معروف محقق محدث شیخ عبدالفتاح ابوغدہ،شیخ عبد الرشید نعمانی سے بھی اجازت حدیث حاصل تھی۔جبکہ تفسیر قرآن شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان مرحوم سے پڑھی۔

انہوں نے 1970ء میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے درس نظامی کی تکمیل کی اور معروف دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کراچی میں دو سال تدریسی خدمات سے عملی زندگی کا آغاز کیا،جہاں حدیث،اصول حدیث سمیت دیگر فنون کی کتب آپ کے زیر درس رہیں۔1972ء میں جامعہ علوم اسلامیہ میں تدریس کا آغاز کیا اور 52 سال مختلف علوم و فنون کی تدریس کی،گزشتہ کئی سالوں سے حدیث کے استاد تھے،مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مرحوم کی وفات کے بعد شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔

پانچ دھائیوں سے زائد تدریس میں آپ کے نمایاں شاگردوں میں مولانا ڈاکٹر عادل خان ش ہ ید،مفتی محمد زرولی خان،مولانا عطاء الرحمن،مولانا سید سلیمان بنوری،مولانا امداداللہ یوسف زئی،مولانا محب اللہ، مفتی محمد نعیم،مولانا احمد یوسف بنوری، مولانا سعید اللہ شاہ، مفتی ابو لبابہ سمیت دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں علماء شامل ہیں۔عربی، اردو ، دری اور فارسی زبان میں درجنوں مقبول عام کتب کے مصنف تھے،جن میں شہرہ آفاق فارسی اور دری زبان میں وہ تفسیر قرآن بھی شامل ہے جو سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے حجاج کو پیش کی جاتی ہے جو لاکھوں کی تعداد میں گزشتہ کئی سالوں سے شائع ہورہی ہے۔درس نظامی کی کئی کتب کی تسہیل بھی آپ نے مرتب کیں۔آپ کی علمیت کا ہی اثر تھا کہ گزشتہ کئی سالوں عرب ممالک کے بڑے بڑے شیوخ و علماء ان سے حدیث کی اجازت کیلئے رجوع کرتے تھے۔

گزشتہ چند برسوں سے مختلف امراض میں مبتلاء ہونے کے باوجود درس حدیث کا معمول تھا،12 اگست 2024ء دل کی تکلیف کی وجہ سے ہسپتال میں انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا اور گزشتہ شب تقریباً بیانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں13 اگست 2024ء کو بعد نماز ظہر شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے نماز جنازہ پڑھائی،جس میں مولانا سید سلیمان بنوری، مولانا احمد یوسف بنوری،مولانا محمد انور، مولانا شمس الرحمن عباسی،مولانا عبدالرزاق زاہد،مولانا عزیز الرحمن،مولانا قاری مفتاح اللہ،مولانا عبدالستار،مولانا اورنگزیب فاروقی،مفتی زبیر اشرف عثمانی، ڈاکٹر عمران اشرف عثمانی،مفتی نعمان نعیم،مولانا انور شاہ، قاری محمد عثمان، مفتی خالد محمود، مولانا عبدالجبار،مولانا عبد الروف غزنوی، مولانا تاج محمد حنفی، مولانا یوسف افشانی، مولانا محمد عمر مکی، مولانا راحت علی ہاشمی،مفتی انس عادل،مولانا محمد زیب، قاری ضیاء الحق،مولانا قاری فیض اللہ چترالی، مولانا قاسم عبداللہ و سیکڑوں علماء اور ہزاروں طلباء سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئے۔بعد ازاں عظیم دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے قبرستان میں تدفین عمل میں لائی گئی۔

مولانا انور بدخشانی مرحوم کی پہلی شادی محدث کبیر علامہ سید محمد یوسف بنوری کی صاحبزادی ی سے ہوئی جن سے ایک بیٹی تھی جن کا انتقال کم عمری میں ہوگیا تھا۔1975ء میں آپ کی پہلی اہلیہ کا انتقال ہوا،اس کے بعد مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی کی نواسی اور مولانا نور احمد نور کی صاحبزادی سے آپ کی شادی ہوئی،آپ کے دو بڑے فرزند مفتی انس انور اور مولانا عمر انور بدخشانی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں استاد ہیں، دونوں تدریس و شعبہ تحقیق و افتاء سے بھی منسلک ہیں۔جبکہ سب سے چھوٹے فرزند احمد انور زیر تعلیم ہیں۔سوگواران میں ایک بیوہ چھ بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔

دریں اثناء مولانا محمد انور بدخشانی کی رحلت پر قائدین وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی،مولانا فضل الرحمان ، مولانا انوار الحق،مولانا محمد حنیف جالندھری،مولانا عبیداللہ خالد،مولانا سعید یوسف،صوبائی نظماء مولانا حسین احمد،مولانا قاضی عبد الرشید،مولانا صلاح الدین ایوبی،مرکزی ناظم دفتر مولانا عبدالمجید،میڈیا انچارچ مولانا عبد القدوس محمدی،مفتی سراج الحسن سمیت دیگر منتظمین نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے علمی حلقوں کیلئے بڑا سانحہ قرار دیا،قائدین نے اہل خانہ سے مسنون تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے تمام متعلقین سے بھی افسوس کا اظہار کیا،اس موقع پر قائدین وفاق المدارس نے احباب و اہل مدارس سے خصوصی دعاؤں کے اہتمام کرنے کی درخواست بھی کی۔

جواب دیں

Subscribe To Our Mailing List

Get the news right tn your inbox

Subscription Form Footer Style-2

کمپنی کے بارے میں

مقبول زمرے

فوری رابطے

اقسام

رابطہ کی معلومات

ہمیں فالو کریں