پاکستان کے بیشتر حصوں میں مون سون بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچادی ہے۔ سیلابی ریلوں میں آکر کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ متاثرین نے پناہ کیلئے محفوظ مقامات کا رخ کرلیا ہے۔ 50 ہزار سے زائد متاثرین کراچی پہنچ گئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ اور آفت زدہ اضلاع سے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 3 سے 4 ہزار متاثرین شہرقائد پہنچ رہے ہیں اور اب تک 50 ہزار سے زائد متاثرین کراچی پہنچ چکے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے وزیر محنت اور پیپلز پارٹی کے کراچی ڈویژن کے صدر سعید غنی نے اجلاس کی صدارت کی جس میں سیلاب متاثرین کی بحالی، ان کی موجودہ صورتحال اور امدادی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سعید غنی نے اجلاس کو بتایا کہ اب تک تقریباً 50ہزار سیلاب متاثرین پہلے ہی کراچی پہنچ چکے ہیں، یہ تمام لوگ سندھ حکومت کی جانب سے سچل گوٹھ اور ضلع شرقی، غربی اور کیماڑی میں لگائے گئے کیمپوں میں مقیم ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی اور پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی نے اجلاس کو بتایا کہ صوبائی حکومت ان تمام کیمپوں میں طبی سہولیات کا بندوبست کر رہی ہے جہاں سیلاب متاثرین قیام پذیر ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پارٹی کوئی نقد عطیہ جمع نہیں کر رہی ہے اور اگر کوئی نقد رقم دینا چاہتا ہے تو اسے سندھ حکومت کے امدادی اکاؤنٹ میں جمع کرانی چاہیے۔
سندھ کی وزیر برائے ترقی نسواں سیدہ شہلا رضا اور پیپلز پارٹی سندھ کی انفارمیشن سیکریٹری نے خواتین اور بچوں اور ان کی ضروریات پر خصوصی توجہ دینے پر زور دیا۔
ملیر سے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی محمد ساجد جوکھیو نے کہا کہ ضلع ملیر میں سندھ کے مختلف علاقوں سے تقریباً 25ہزار سیلاب متاثرین قیام پذیر ہیں، ایک محدود اندازے کے مطابق تقریباً 3 سے 4ہزار لوگ دیہی سندھ سے روزانہ کراچی پہنچ رہے ہیں۔
ساجد جوکھیو نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان لوگوں کو شہر کے مختلف علاقوں میں رہنے کی پیشکش کرنے کے بجائے ناردرن بائی پاس کے ساتھ ایک ٹینٹ سٹی قائم کرنا چاہیے۔