موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جہاں دنیا کے بیشتر ممالک کے درجہ حرارت بڑھ رہے ہیں وہیں پاکستان بھی ان ہی ممالک میں شامل ہے جسکے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ جنگلات کی کمی اور درختوں کی کٹائی، آب و ہوا میں تبدیلی، بنجر زمینیں، کم فصلیں، سیلاب اور گرین ہاؤس گیسوں میں اضافہ مقامی لوگوں کے لیے بہت سے مسائل کا سبب بن رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 ملین ہیکٹر جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔ 2010 اور 2020 کے درمیان عالمی سطح پر جنگلات کا نقصان 4.7 ملین ہیکٹر سالانہ اور جنگلات کی کٹائی کی شرح اس سے کہیں زیادہ تھی۔
دعا فاؤنڈیشن کے جنرل سیکرٹریڈاکٹر فیاض عالم نے ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ درخت کاٹنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لکڑی فروخت ہوتی ہے۔ جو بہت بڑے بڑے درخت ہوتے ہیں، ان کی جو لکڑیاں ہوتی ہیں یہ قیمتی ہوتی ہیں ان سے فرنیچر بنتا ہے۔
حکومت پاکستان کا فارسٹ ڈیپارٹمنٹ ہر سال باقاعدہ درخت کاٹنے کی اجازت دیتا ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ لوگ اجازت سے زیادہ غیر قانونی طریقے سے درخت کاٹنے لگ جاتے ہیں اور یہ پوری مافیا کہلاتی ہے۔ اس پر حکومت کنٹرول نہیں کرپائی کیونکہ حکومت کے ہی افسران، وزیر وغیرہ اس سارے کام میں شامل ہوتے ہیں ان کو پیسہ ملتا ہے یہ بہت بڑا کاروبار ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی وجہ سے جنگلات کا رقبہ بھی کم ہو رہا ہے اور نہ ہی نئے جنگلات فروغ پارہے ہیں۔
پاکستان میں کتنے رقبے پر جنگلات موجود ہیں؟
نیشنل فوریسٹ پروڈکٹز اسٹیٹیسٹیک پاکستان کے مطابق پاکستان میں چار اشاریہ دو ملین ہیکٹر جنگلات موجود ہیں جو کہ کل اراضی کے 4.8 فیصد کے برابر ہے۔ وزرات برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن کے مطابق پاکستان کے کل رقبے کا 5 فیصد سے بھی کم رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے اور ان میں سے 1.5 فیصد جنگلات ہر سال ختم کردیے جاتے ہیں تو اس سے پاکستان کی حیاتیاتی تنوع، ماحولیات اور زراعت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
گلوبل فوریسٹ واچ کے مطابق 2001 سے 2023 تک، کراچی میں 5 ہیکٹر درختوں کا صفایا کردیا گیا۔ 2000 کے بعد سے درختوں کے احاطہ میں 0.69 فیصد کمی آئی اور یہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 862 ٹن کے برابر ہے۔
کراچی میں درختوں کی کٹائی کے حوالے سے جنرل سیکرٹریڈاکٹر فیاض عالم نے بتایا کہ کراچی میں جو درختوں کی کٹائی ہے وہ بہت بڑے پیمانے پہ تو نہیں ہو رہی،اس کی تین چار وجوہات ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ کراچی میں اربنائزیشن زیادہ ہو رہی ہیں۔ نئی نئی ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے۔ پودے لگانے کلچر ویسے ہی کم ہوتا جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ ہاؤسنگ سوسائٹی والوں کو حکومت پابند نہیں کرتی ہے کہ آپ ساتھ مکان بنا رہے ہیں پلاٹ بیچ رہے ہیں توآپ ساتھ پلانٹیشن بھی کریں ہاؤسنگ سوسائٹی کو پابند کرنا چاہیے اور ان کو اخلاقی طور پر بھی خیال کرنا چاہیے کہ ہم پلاٹ بیچ رہے ہیں مکان بیچ رہے ہیں تو کیا ہم پلانٹیشن کر رہے ہیں تاکہ ماحول بھی بہتر ہو۔
ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام اور فضا کو سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے درخت لگانا بہت ضروری ہے۔ درخت لگانے کے بہت سارے فوائد ہیں کیونکہ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن مہیا کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے بھی روکتے ہیں درخت اور پودے لگانے سے ما حول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔
ایک درخت سے کتنی آکسیجن پیدا ہوسکتی ہے؟
دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق، ایک بالغ بیچ کا درخت ایک سال میں 10 لوگوں کی مدد کے لیے کافی آکسیجن پیدا کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے جے کے کوپر ٹری سروسز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ اوسطاً، ایک 100 سال پرانا درخت اپنی زندگی کے دوران تقریباً 6,600 کلو گرام آکسیجن خارج کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کا شکار ہے اسی کے ساتھ بلومبرگ کا تخمینہ ہے کہ ملک کا صرف پانچ فیصد حصہ ہی جنگلات پر مشتمل ہے جو کہ عالمی اوسط 31 فیصد کے مقابلے میں ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں ہوتا ہے۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی مسائل کی ایک وجہ یہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے پاکستان کی 24 فیصد سے زائد آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے، جس کی وجہ سے انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے زیادہ خطرہ لاحق ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا قدرتی وسائل پر زیادہ انحصار ہے اور وہ موسمی تغیرات کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں
ڈاکٹر فیاض عالم کہتے ہیں کے درختوں کے بغیر تو گزارا نہیں ہے دنیا میں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے اگر اس کو اگر آپ نے کنٹرول نہیں کیا تو درخت نہیں لگائے تو اوزون کی تہہ تباہ ہو جائے گی، گرمی کی شدت بڑھ جائے گی اور اس کے بعد زندگی ختم ہو جائے گی پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ جنگلات اور درختوں کی بھی تو آبادی بڑھنی چاہیے۔
بلین ٹری سونامی منصوبہ
ماضی میں پاکستان میں شجرکاری کے مختلف پروگرامز شروع کئے گئے جن میں سے ایک بڑا “بلین ٹری سونامی” منصوبہ تھا جس کا مقصد دس ارب درختوں کی شجرکاری کرنا تھی۔ گلوبل لینڈ اسکیب فورم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان کے مطابق بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت اب تک ملک بھر میں ایک ارب درخت لگائے جا چکے ہیں۔ تاہم، ان درختوں کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر دوبارہ اُگنے والے درخت بھی شامل ہیں۔اس منصوبے کے تحت لوگوں کے لیے کئی روزگار بھی کھلے ہیں۔
گلوبل لینڈ اسکیب فورم کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستانی وزارت موسمیاتی تبدیلی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مقامی لوگوں کے لیے بلین ٹری سونامی کے منصوبے کے ذریعے تقریباً 85,000 ملازمتیں پیدا کی ہیں، جن میں سے زیادہ ترعارضی ہیں، جن میں نرسری اور نگہبان کی ملازمتیں شامل ہیں۔
ڈاکٹر فیاض عالم کے مطابق معیشت کو فائدہ پہنچانے والے وہ درخت ہوتے ہیں جن میں پھل لگتے ہیں پھول لگتے ہیں وہ درخت اگر لگائے جائیں گے تو ٹھیک ہے۔ ویسے کراچی میں پہلے درخت لگے ہوئے ہوتے تھے اور ظاہر ہے ان درختوں کے جو مالکان ہوتے تھے انہیں فائدہ ہوتا تھا۔
زیتون سے پاکستان کی معیشت کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ زیتون کا جو تیل ہے وہ بہت قیمتی چیز ہے۔ آپ پاکستان میں امپورٹ کرتے ہیں پاکستان ہر سال تقریباً پانچ ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے اوراگر پاکستان نے بہت بڑے پیمانے پر زیتون لگانا شروع کردیے تو نہ صرف اس سے آپ کے امپورٹ بل کا خرچہ کم ہوگا بلکہ آپ ایکسپورٹ کرنے کے بھی قابل ہو جائیں گے تو اس سے تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے اب آپ دیکھیں نا اسپین، اٹلی اربوں ڈالر کا زیتون کا تیل ایکسپورٹ کرتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ماحول کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو شجرکاری ایک بہترین حل ہے کیونکہ شجرکاری سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں، جس سے ہوا کا معیار بہتر ہوتا ہے اور وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ شہری علاقوں میں ہریالی میں اضافہ صفائی اور تازگی کو بڑھاتا ہے جو لوگوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ آیا ہم نے شجرکاری میں اضافہ کر کے زندگی کو معیاری بنا کر معیاد کو بڑھانا ہے یا اس کے نام پر غیر معیاری زندگی کو پروموٹ کرکے خود کو اندھے گڑھے میں ڈالنا ہے۔