پینے کا پانی کراچی کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نامناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث جہاں روزانہ ہزاروں گیلن پانی ضائع ہوجاتا ہے وہیں موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی شہرقائد میں پانی کی قلت میں اضافہ کیا ہے۔ شہرقائد کا پوش علاقہ ڈیفنس ہو یا قدیم علاقہ لیاری، گلشن اقبال ہو، گلستان جوہر ہو یا اولڈ سٹی ایریا کے علاقے۔ کراچی باسیوں کیلئے پانی کی نعمت نایاب ہے۔
پانی کی کمی مسئلہ صرف کراچی کو ہی درپیش نہیں بلکہ پاکستان کا تقریباً ہر شہر پانی کی کمی کا سامنا کرنا ہے۔ اسی سلسلے میں کراچی میں حبیب یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر حسان ایف خان نے ایک تحقیق کی اور اس تحقیق کیلئے لیاری کو کیس اسٹڈی کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس دوران گھریلو پانی کی طلب، پانی کی معیشت، پانی تک رسائی کے عوامل، اور کم آمدنی والے محلوں میں پانی کے استعمال کے بارے میں تحقیق کی گئی۔ جس کے حوالے سے ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے پرفیسر اربن اینڈ انوائیرومنٹ پالیسی حسن فرقان خان نے کا کہنا تھا لیاری میں جوہم نے اسٹڈی کی ہے کہ سب سے غریب جو گھرانے ہیں انہوں کو سب سے مہنگا پانی خریدنا پڑتا ہے اور کچھ ایسے گھرانے ہیں جہاں ان کی 20 فیصد 30 فیصد ماہانہ آمدنی پانی کو حاصل کرنے میں لگ جاتی ہے۔
تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ معاشی حیثیت رکھنے والے گھرانے پانی کے وسائل پر زیادہ قابو رکھتے ہیں اور پانی کی کمی کے باوجود زیادہ پانی استعمال کر لیتے ہیں، جس سے کم آمدنی والے افراد کے لیے پانی کی دستیابی مزید کم ہو جاتی ہے۔ پانی کی فراہمی کا دورانیہ اور تسلسل بھی گھرانوں کے پانی کے استعمال پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تحقیق کیلئے پروفیسر ڈاکٹرحسان ایف خان کی ٹیم میں شامل طلباء نے اسمارٹ ڈیوائس بھی تیار کی جو پانی کے استعمال کی معلومات کو حقیقی وقت میں جانچنے اور منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پرفیسر حسن فرقان نے اس بارے میں بتایا کہ ہم نے ایک اسمارٹ ڈیوائس بنائی تھی جس سے ہم گھروں میں استعمال کئے جانے والے پانی کے بارے میں معلوم ہوسکتا ہے۔ ڈیوائس کلاؤڈ سروس سے منسلک ہوتی ہے اور ہر 30 سیکنڈ بعد پانی کا پیمانے کو نوٹ کرکے سینٹرل سروے کو بھیجتی ہے۔ ہم نے بہت سے ایسے گھرانے اپنی ریسرچ پروجیکٹ میں دیکھے جہاں پانی آتا ہی نہیں ہے لیکن پانی کا بل آتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان میں پانی کی کمی
پاکستان میں پانی کی کمی شدید بحران کی شکل اختیار کر تی جا رہی ہے۔ گلوبل واٹر سیکیورٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہےاور 70 برسوں میں پاکستان میں فی کس دستیاب پانی میں 80 فیصد کمی آئی ہے۔ پانی کا تحفظ ایک اہم مسئلہ ہے، جسے نظرانداز کرنا ماحولیات اور مستقبل کی نسلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر نعمان احمد نے ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاں گلیشیئرز ختم ہو رہے ہیں اس کے نتیجے میں تیز رفتاری کے ساتھ پانی واٹر ویٹ سے گزر کر دریاؤں میں اور ندی نالوں میں بہہ جاتا ہے اور چونکہ ہمارے پاس خاطر خواہ اسٹوریج کے صحیح انتظامات نہیں ہیں اس وجہ سے اکثرمقامات پر جو اسٹوریچ کپیسٹی ہے وہ صحیح استعمال نہیں ہو پاتی ہے۔
وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ میں کچھ اس طرح کی ہی نشاندہی کی گئی۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 2018 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد ہے گزشتہ 19 برسوں سے شہر کی آبادی میں سالانہ اوسطاً 2.4 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ 13 سال سے شہر میں پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور اس شہر کو اپنی ضرورت سے 56 فیصد پانی کم فراہم کیا جاتا ہے
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ شہر میں پانی کی روزانہ ضروریات کا تخمینہ 918 ملین گیلن ہے۔ لیکن شہر کو 580 ملین گیلن کے لگ بھگ یومیہ پانی فراہم کیا جاتاہے۔ جب کہ فراہمی کے بوسیدہ نظام کی وجہ فراہم کیا جانے والے پانی میں سے 174 ملین گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے اور بمشکل 406 ملین گیلن پانی ہی شہریوں کو میسر آتا ہےجو کہ شہر کی ضرورت کا محض 44 فیصد ہے۔
گھروں میں پانی کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟
پانی کے تحفظ کے لئے جہاں ہم سب نے کردار ادا کرنا ہے وہیں خواتین کا کردار بھی بہت ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین ہی اپنے گھروں کے لئے پانی جمع کرنے کا بوجھ اٹھاتی ہیں اور ہر 10 میں سے 8 گھرانوں میں پانی جمع کرنے کی ذمہ دار خواتین ہی ہیں۔
گھریلو سطح پر پانی کے استعمال پر ڈاکٹر نعمان کا کہنا تھا کہ کپڑے دھونے اور برتن دھونے کے حوالے سے جو پانی کا استعمال ہوتا ہے اس میں پانی بہت زیادہ ضائع ہوتا ہے بعض دفعہ نل کو کس طرح ایڈجسٹ کرنا چاہیے اس کا ہمیں اندازہ نہیں ہوتا ہمارے پاس ایسے نلکوں کے ڈیزائن آگئے ہیں جس کے نتیجے میں پانی کے بھاؤ کی رفتار کو موثر طریقے سے ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے خاص طور پر جن جگہوں پر پانی کی قلت ہو اور اگر ہم اس نوعیت کے نلکوں کو نصب کرے تو اس سے پانی کی کافی حد تک بچت ہو سکتی ہے۔
کراچی میں شہریوں کو پانی نہ ملنے کی وجہ پانی چوری ہے؟
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں 43 فیصد آبادی کو بہترین پانی کی عدم فراہمی جیسے مسائل کاسامنا ہے، شہری علاقوں میں آبادی کو پینے کے لیے طلب سے نصف مقدارمیں پانی فراہم کیا جاتا ہے جب کہ کراچی میں پینے کے پانی کا تقریباً 35 سے 58 فیصد چوری اور لیکج کےباعث ضائع ہورہا ہے۔ جبکہ جہاں پانی وافر مقدار میں دستیاب بھی ہے وہاں شہری خود پانی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں
اسی حوالے سے مئیر کراچی مرتضی وہاب کہتے ہیں کراچی شہر میں پانی کی چوری اور لیکج کا بالکل مسئلہ ہے۔ کراچی واٹر سروس کارپوریشن کی جانب سے غیرقانونی ہائیڈرنٹس جو تھے ان کے خلاف ایک بڑی کاروائی کی گئی ہے اور تقریبا 200 سے اوپر بڑے اور چھوٹے ہائیڈرنٹس کو مسمار کیا گیاہے۔ جو ہائیڈرنٹس سے واٹر ٹینکر چلتے ہیں اور شہریوں کے گھر میں پانی پہنچاتے ہیں ان کو رجسٹر کرنے کا عمل شروع ہوا اور تقریبا 3200 ٹینکرز ایسے ہیں جو کہ اب واٹر بورڈ انتظامیہ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں ان کی موومنٹ کو ٹریک کیا جاتا ہے۔
کراچی میں پانی کی کمی کو پورا کرنے ڈی سلینیشن پلانٹ لگانے کے بھی منصوبے خبروں کی زینت بنے رہے۔ اس حوالے سے میئرکراچی مرتضٰی وہاب کی زیرصدارت اجلاس میں غور بھی ہوا۔ جس پرمئیر کراچی نے کہا کہ پہلے پروپر ڈی سیلیشن پلانٹ کے پروکیومنٹ کے پروسیس کا آغاز ہو گیا ہے اخبار میں اس کا ٹینڈر فلوٹ کر دیا گیا ہے
پانی کی قلت کا مسئلہ تو اپنی جگہ ہے لیکن بیشتر علاقوں میں شہریوں کو جو پانی ملتا ہے وہ بھی اس قدر آلودہ ہوتا ہے کہ ماہرین صحت اسے پینے قابل قرار نہیں دیتے۔ ڈبلو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا کے خطے میں آبی آلودہ ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ ملک پینے کے پانی کے معیار کے حوالے سے دنیا میں 122 ممالک میں 80 واں نمبر پر ہے ہیاں پینے کا پانی مائکروبیل اور زہریلی دھاتوں سے آلودہ ہے
پاکستان کے وزیرآبی وسائل مصدق ملک کے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب کے مطابق ملک بھر کے 29 شہروں کا 61 فیصد پانی غیر صحت بخش ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی شہری سب سے زیادہ آلودہ پانی پیتے ہیں۔
وزیرآبی وسائل کے مطابق کراچی کا 93 فیصد پانی انسانی صحت کیلئے غیرمحفوظ ہے۔ سب سے زیادہ ملتان میں 94 فیصد پانی صحت کیلئے غیرمحفوظ قرار پایا۔ مصدق ملک کے مطابق ملک کے 50 فیصد پانی کے ذرائع کیمیائی آلودگی کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق اسی آلودہ پانی سے بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔
آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریاں
آلودہ پانی کے استعمال کے حوالے سے ڈاکٹر محمد اویس خان نے ٹائمز آف کراچی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آلودہ پانی کا استعمال کئی طرح کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے جیسے کہ ٹائی فائر،کولرا، وائرل ڈائریاز، بیکٹیریا ڈائریز، ان بیماریوں کی علامات کے اندر موشن لگ جاتے ہیں متلی اور الٹی کی کیفیت طاری ہوتی ہے شدید الٹیاں لگتی ہیں بخار آسکتا ہے اور اگر اس کا صحیح اور بروقت علاج نہ ہو تو شدید پانی کی کمی کی وجہ سے جان کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے
ایشیائی ترقیاتی بینک نے پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اپنی رپورٹ میں تجویز دی ہے کہ پاکستان میں موجودہ اربن ڈیولپمنٹ ماڈل کی جگہ نیا نظام بنانے کی ضرورت ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کو سالانہ 3 لاکھ 50 ہزار نئے گھروں کی ضرورت ہے، آبادی کی سیٹلمنٹ کیلئے مجموعی طور پرایک کروڑ نئے گھروں کی ضرورت ہے
پاکستان کو 10 سال، 20 سال اور 30سالہ شہرکاری کا نیاپلان بنانےکی ضرورت ہے، میونسپل سروسز بہتر بنانے کے لیے پرائیویٹ پارٹنرشپ ایگریمنٹس کی ضرورت ہے جب کہ صوبائی حکومتوں کولوکل گورنمنٹ ایکٹ پر عملدرآمد کےلیے اقدامات کی ضرورت ہے۔