ماہرین صحت نے کراچی سمیت ملک بھر میں ایٹروجنک فٹسولا کے کیسز میں تیزی سے اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور غفلت برتنے والے اداروں کے خلاف کارروائی اور متاثرہ خواتین مریضوں کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ آپریشن کے دوران حادثاتی طور پر سرجن کے ہاتھوں ایٹروجینک فسٹولا بن جاتا ہے، جس سے مثانے یا یوریٹر اور وجائنا یا اندام نہانی کے درمیان معمول سے ہٹ کر تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور سوسائٹی آف سرجنز کے زیر اہتمام پی ایم اے ہاؤس میں منعقدہ کانفرنس میں سینئر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر سید شیر شاہ نے بتایا کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں ایٹروجنک فسٹولا کے کیسز میں حیران کن طور پر اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ سال کراچی کے ایک اسپتال میں ایٹروجنک فٹسولا کے تقریباً 600 مریضوں کا علاج کیا گیا۔ ان کیسز میں کم از کم 17 مریض شامل ہیں جن کا ایک اینستھیسٹسٹ نے آپریشن کیا تھا۔ ڈاکٹر سید شیر شاہ نے اس بیماری کے کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ناقص تربیت یافتہ سرجن بڑے آپریشن کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں چند پوسٹ گریجویٹ مراکز پوسٹ گریجویٹ ٹرینیز کو منظم تربیت فراہم کرتے ہیں۔ یہ نظام امیدواروں کو شارٹ کٹ لینے، پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما حاصل کرنے، اور مشیر کے طور پر کام شروع کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان میں غلطیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے، بچہ دانی کو بائیں اور دائیں کاٹنا اور نالورن کا سبب بنتا ہے۔
ماہرین نے مطالبہ کیا کہ جب آپریشن کے دوران سرجن کی کسی غلطی سے مریض کو نقصان پہنچے تو اسے معاوضہ دیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اسپتال کی ذمہ داری ہے کہ ان مریضوں کی مدد اور ان کے فسٹولا کا علاج بلامعاوضہ یقینی بنائے، انہوں نے میڈیکل کالجز اور پوسٹ گریجویٹ تربیت کے معیار کی نگرانی کا بھی مطالبہ کیا۔