سندھ کے ضلع سانگھڑ کی باہمت لڑکی جو فرسودہ نظام میں خواتین کے لیے ہوا کے جھونکے سے کم نہیں، جہاں خواتین دوسرے شعبوں میں اپنا نام بنا رہی ہیں وہیں ارم جٹ نے ایمبولینس چلانے جیسے مشکل کام کو چنا ہے۔ لندن یا نیویارک جیسے شہروں میں کسی خاتون کا ایمبولینس چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن صوبہ سندھ کے اس دور افتادہ اور قدامت پسند قصبے میں 21 سالہ ارم نے جون میں اس وقت نئی تاریخ رقم کی، جب انہیں پہلی خاتون ڈرائیورز کے طور پر ہیلتھ سروسز میں ملازمت پر رکھا گیا۔
سندھ انٹیگریٹڈ ایمرجنسی اینڈ ہیلتھ سروسز (ایس آئی ای ایچ ایس) ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، جو صوبے بھر میں 460 ’ہوپ ایمبولنس آپریٹ کرتی ہے۔ 2021 میں قائم کی گئی اس تنظیم میں 750 ایمرجنسی وہیکل آپریٹرز کو ملازم رکھا گیا ہے، جس نے اکتوبر 2023 میں تین ایمبولینسوں کے ساتھ سانگھڑ میں اپنے آپریشن کا آغاز کیا۔ قدامت پسند معاشرے میں جہاں بعض اوقات خواتین کو تعلیم، ملازمت اور یہاں تک کہ ووٹ ڈالنے جیسے حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے وہاں خواتین ایمبولینس ڈرائیوروں کو ملازمت دینا ایس آئی ای ایچ ایس کا ایک جرات مندانہ اقدام تھا۔ یہ وہ اقدام تھا جس کا کراچی اور حیدرآباد جیسے صوبے کے بڑے شہری مراکز میں بھی تجربہ نہیں کیا گیا تھا۔
عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں ارم نے بتایاکہ ’بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے لیکن کسی بھی فرد کے اندر موجود جذبہ اس سے کچھ بھی کروا سکتا ہے۔ میں نے بھی اپنے اندر ایسا ہی (جذبہ) محسوس کیا، میں ایمبولینس چلانا چاہتی تھی۔‘
انٹرمیڈیٹ ڈگری حاصل کرنے والی ارم نے سوشل میڈیا پر ایمبولینس ڈرائیور کے لیے نوکری کا اشتہار دیکھا اور درخواست دے ڈالی۔ انتخاب سے پہلے انہیں کئی ٹیسٹوں سے گزرنا پڑا۔
ارم نے بتایا کہ’سڑک پر، لوگوں کے لیے یہ عام بات ہے کہ جب وہ کسی خاتون کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ انہیں گھورتے ہیں۔ بہت سے لوگ راستہ نہیں دیتے۔ ہمارے سانگھڑ شہر سے نکلتے وقت موٹر سائیکل سوار راستہ نہیں دیتے اور ہمیں اس سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ منفی اور دقیانوسی تصورات اور یہ تعصب کہ خواتین بری ڈرائیور ہوتی ہیں یا آہستہ گاڑی چلاتی ہیں، نے بھی ان کے کام کو مشکل بنا دیاتھا۔