پاکستانی کرکٹر ساجد خان کا ملتان میں انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں ایک کے بعد ایک بہترین انگلستانی بلے بازوں کو آؤٹ کر کے سات وکٹیں اپنے نام کرنے کے بعد خوب چرچا ہے ،صرف ساجد خان کی پرفارمنس ہی نہیں بلکہ انکا سیلیبریشن کا انداز بھی موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔
انگلینڈ کے خلاف میچ میں انکی گنجائش تب بنی جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم اور سرفرازاحمد سمیت کئی کھلاڑیوں کو ڈراپ کرتے ہوئے ساجد خان اوسر دیگر کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا گیا ۔
ساجد خان کی کہانی
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ساجد خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر مردان سے ہے۔ وہ اٹھا رہ برس سے کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن انھوں نے 2021 سے انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز کیا۔
دو برس قبل پاکستان کر کٹ بورڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کئے جانے والے انکے ایک انٹرویو میں ساجد نے اپنے خاندان کے متعلق بتایا تھا کہ ’انکے دو بڑے بھائی ہیں جن میں سے ایک رکشہ چلاتا ہے اور دوسرے کا کریانہ اسٹور ہے۔‘
ساجد کا کہنا تھا کہ ’جن کے والد حیات نہیں ہوتے انھیں پتا ہوتا ہے کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔‘
وہ کالج کے بعد کھیلوں کے سامان اور موبائل فون کی خرید و فروخت کا کام کر تے تھے جس سے وہ چار پانچ سو روپے کما لیتے تھے۔ اور اس رقم سے وہ اپنے لیے اسپورٹس کا سامان خرید تے تھے۔
انٹرویو میں اپنی جدوجہد کا زکر کر تے ہوئے ساجد خان نے بتا یا کہ انڈر 18 کے بعد بڑی مشکل سے انھیں گریڈ ٹو کرکٹ مل رہی تھی لہذا وہ دبئی چلے گئے۔‘
انکے پاس چھ مہینے کا ویزا تھا جہاں وہ ہفتے میں پانچ دن ایئر پورٹ پر کام کرتے اور دو دن کرکٹ کھیلتے تھے۔ مگر پھر ’ماں نے کہا جو بھی کرنا ہے یہاں آ کر کرو‘ اسی لیے وہ واپس آ گئے۔
جب وہ پاکستان واپس آئے تو اس وقت گریڈ ٹو کے ٹرائل ہو رہے تھے۔ ساجد کے مطابق ’میں نے سوچا چلو یہ ٹرائل دے دیتا ہوں اور میں سیلیکٹ ہو گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت وہاں عمران خان سینئیر (فاسٹ بولر) موجود تھے جنھوں نے مجھے دیکھا اور بلا کر پوچھا آپ کے پاس شوز نہیں ہیں؟
ساجد کہتے ہیں ’میں شرماتا تھا، یہ نہیں کہہ سکا کہ نہیں ہیں، بلکہ کہا کہ میرے پاس دو جوڑے ہیں۔ مگر وہ میری آنکھوں سے سمجھ گئے۔۔۔ انھوں نے اپنے بیگ سے نکال کر مجھے پہلی بار سپائکس جوتے دیے۔‘
اس سیلیکشن کے بعد ساجد نے ڈومیسٹک کرکٹ میں شاندار پرفامنس کا مظاہرہ کیا
ساجد کہتے ہیں کہ ’جو لوگ کہتے ہیں سفارش کے بنا کرکٹ نہیں ہوتی، یہ سراسر جھوٹ ہے۔ جو محنت کرتا ہے، اسے محنت کا پھل ملتا ہے۔‘
ان کے مطابق میں 10 سال اس کرکٹ کے لیے لڑا ہوں ’یہاں تک پہنچنے میں میری کوئی سفارش نہیں ہے، میرے پیچھے کوئی نہیں کھڑا۔ بس محنت کرنی ہے اور بڑوں کا احترام کرنا ہے۔‘
ساجد کہتے ہیں کہ جو سپورٹ ہے وہ بس میری ماں ہے ’جب بھی مجھ پر مشکل وقت آتا ہے میں ماں کے پیروں میں بیٹھ جاتا ہوں۔ میں نے جتنی محنت کی، جتنی جدوجہد کی یہ سب ماں کی وجہ سے ہے۔‘
’جب بھی اچھا پرفارم کرتا ہوں ٹیم سے باہر نکالا جاتا ہوں‘
ملتان ٹیسٹ کے روز دوسرے دن کے کھیل کے اختتام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے ساجد خان نے کہا ’اگر آپ اپنی پچھلی زندگی کو اور اپنی محنت و جدوجہد کو دیکھیں اور آپ کو اس سٹیج پر آ کر پاکستان کے لیے کھیلنے کا موقع مل رہا ہو تو جذبہ خودبخود پیدا ہو جاتا ہے، میرے والد صاحب پاکستانی فوج میں تھے اور بس میں اسی جذبے سے اس ملک کے لیے کھیلتا ہوں۔‘
بی بی سی کے مطابق زینب عباس کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’جب بھی میں سب سے اچھا پرفارم کرتا ہوں سب سے پہلے ٹیم سے باہر میں ہی نکالا جاتا ہوں، اسی لیے بس یہ جذبہ میری سیلیبریشن میں آ گیا۔‘