سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین عدالت کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال کی جانب سے فوری معافی کی درخواست کر مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے کس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی،آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ جو کرنا ہے کریں لیکن جھوٹ نہ بولیں
مصطفیٰ کمال کےوکیل فروغ نسیم نےکہاکہ ہم نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے جس میں غیر مشروط معافی مانگی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ آپ اپنا غیر مشروط معافی والا جواب عدالت میں پڑھ کر سنا دیں۔ وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں مصطفیٰ کمال کا جواب پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ یہ کوئی انا کا مسئلہ نہیں لیکن آپ پارلیمان کے ممبر ہیں،ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کیسے کر سکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےوکیل فروغ نسیم سےاستفسارکیاکہ مصطفیٰ کمال معافی بھی مانگ رہے ہیں اور یہ بھی کہ رہے ہیں کہ توہین عدالت نہیں کی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دیتےہوئےکہاکہ پارلیمنٹ میں عدلیہ کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک آئینی ادارہ ہے،قوم کو ایک قابلِ احترام عدلیہ اور فعال پارلیمنٹ چاہیئے، ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے پر حملہ کرے تو کوئی فائدہ نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس میں کہاکہ قوم کو ایک ایسی پارلیمینٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو ۔آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی ، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا ، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے ۔
سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے توہین عدالت کیس کی سماعت 28جون تک ملتوی کر دی، عدالت نے تمام ٹی وی چینلز سے بھی دو ہفتے میں جواب طلب کر لیا