Search
Close this search box.
Uncategorized @ur

دن کی روشنی میں آپ ہمیں چور ڈاکو کہتے ہیں، رات کے اندھیروں میں پس پردہ ملتے ہیں، ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار  نے نجی ٹی وی کے سینئر صحافی ارشد شریف کی موت کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس کی۔   

ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہےکہ  اس میں دو رائےنہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنےکی مذمت کرنی چاہیے اور  بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے جب کہ نیوٹرل اور جانورکہنا اس لیے نہیں کہ ہم نےکوئی غداری کی ہے بلکہ یہ سب اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ میری واضح پالیسی ہے کہ میری تشہیر نہ کی جائے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے  آیا ہوں۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ جھوٹ سےفتنہ و فسادکا خطرہ ہوتو سچ کاچپ رہنا نہیں بنتا، میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کے لیے  سچ بولوں گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، اس میں دو رائےنہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنےکی مذمت کرنی چاہیے، بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھاکہ نیوٹرل اور جانور کہنا اس لیے نہیں کہ ہم نے کوئی غداری نہیں کی ہے، یہ سب اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا ہے، غیر قانونی کام سے انکار فرد واحد یا صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں پورے ادارے کا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مزید کہا کہ بالخصوص اس سال مارچ سےہم پربہت پریشر ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہےخودکو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے، جنرل باجوہ چاہتےتو اپنےآخری چھ سات مہینے سکون سےگزارسکتے تھے لیکن جنرل باجوہ نے فیصلہ ملک اورادارے کےحق میں کیا، جنرل باجوہ اوران کے بچوں پرغلیظ تنقیدکی گئی۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت توسیع کی پیشکش کی گئی، اگرآپ کا سپہ سالارغدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے،  اگرآپ کی نظر میں سپہ سالا غدار ہے تو اس کی ملازمت میں توسیع کیوں دینا چاہتے تھے، اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی چھپ کر اس سے کیوں ملتے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آپ دن کی روشنی میں تو ہمیں چور ڈاکو کہتے ہیں، رات کے اندھیروں میں پس پردہ ملتے ہیں۔ ہمیں ملنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ادارے کو بدنام نہ کریں۔

ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی وفات سے جڑے حقائق تک پہنچنا ضروری ہے کیونکہ اس حوالے سے اداروں، لیڈرشپ اور  آرمی چیف پر بے بنیاد الزام تراشی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف ایک نڈر صحافی تھے اور ایک شہید فوجی کے بھائی تھی، ارشد شریف کی موت انتہائی اندوہناک واقعہ ہے، دیکھنا ہو گا کہ مرحوم ارشد شریف کی موت کے حوالے سے اب تک کیا حقائق سامنے آئے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا دیکھنا ہو گا کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے پر کس نے مجبور کیا، ہماری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا، کے پی حکومت نے ارشد شریف کو باچا خان ائیرپورٹ تک مکمل پروٹوکول دیا۔

ان کا کہنا تھا ارشد شریف کی موت کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے، ان تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال کا ذکر بار بار آتا ہے، انہیں واپس پاکستان لایا جائے اور شامل تفتیش کیا جائے، ہم سب کو انکوائری کمیشن کا انتظار کرنا چاہیے، اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں۔

مبینہ امریکی سازش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا سابق وزیراعظم نے سائفر پر کہا تھا کہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن پاکستانی سفیر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں اس وقت کے وزیراعظم سے سائفر کا خود ذکر کیا اور پھر 27 مارچ کو ایک خط لہرا دیا گیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی سیاستدان خود مسئلہ حل کریں لیکن ایسانہ ہو سکا، سائفر کے معاملے پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا مرحوم ارشد شریف، دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے بھی سائفر پر بات کی، اس سب کے باوجود ہمارے دل میں ارشد شریف سے متعلق کوئی نفرت نہیں ہے، ہم نے کہا بغیر ثبوت من گھڑت الزامات ادارے پر نہ لگائے جائیں، میڈیا ٹرائل میں اےآر وائی چینل نے جھوٹے، سازشی بیانیے کے فروغ میں کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کا احاطہ کرنا ضروری ہے جس کے تحت بیانیہ بنایا گیا، عوام کو گمراہ کیا گیا، اداروں اور آرمی چیف پر الزامات لگائے گئے، معاشرے میں تقسیم کی کوشش کی گئی۔

پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی سیاستدان خود مسئلہ حل کریں لیکن ایسا نہ ہو سکا، سائفر کے معاملے پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا، مرحوم ارشد شریف، دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے بھی سائفر پر بات کی۔

ترجمان نے کہا کہ دس اگست کو پشاور ایئرپورٹ سے ارشد شریف دبئی کے لیے روانہ ہوئے، کے پی حکومت نے ارشد شریف کو ایئرپورٹ تک مکمل پروٹوکول فراہم کیا، 5 اگست کو ارشد شریف سے متعلق کے پی حکومت کی طرف سے تھریٹ الرٹ جاری ہوا۔

اس تھریٹ الرٹ سے سیکیورٹی اداروں سےکوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، تھریٹ الرٹ سے لگتا ہے ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے بعد عماد یوسف کو کہا ارشد شریف کو باہر بھیج دیا جائے، سلمان اقبال کو پاکستان واپس لا کر شامل تفتیش کرنا چاہیے، ہم سب کو انکوائری کمیشن کا انتظار کرنا چاہیے، اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں، میری گزارش ہے اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو 20 سال سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں، ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن غدار اور سازشی نہیں ہوسکتے،ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہم بطور ادارہ کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے۔

جواب دیں

Subscribe To Our Mailing List

Get the news right tn your inbox

Subscription Form Footer Style-2

کمپنی کے بارے میں

مقبول زمرے

فوری رابطے

X

اقسام

رابطہ کی معلومات

ہمیں فالو کریں