اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر اور سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل کی اسٹاپ لسٹ سے نام نکلوانے کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت عالیہ نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ ملک میں ایسا کیا ہوگیا تھا ؟ مارشل لاء لگ گیا تھا ؟ حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ہمیں ایف آئی اے اسلام آباد زون کی جانب سے نام اسٹاپ لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست 8 اپریل کو موصول ہوئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے کہا گیا کہ شہباز گل اور شہزاد اکبر کا نام آمدن سے زائد اثاثوں پر لسٹ میں ڈالا گیا، ملک میں جو حالات چل رہے ہیں اس کی وجہ سے نام سٹاپ لسٹ میں ڈالے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان کی کہی بات کا کیا مطلب ہے ؟ کیا پچھلی حکومت خود یہ کیس ان پر بنا کر گئی، سنجیدہ بات کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کی سرزنش کر تے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اپنے آپ کو شرمندہ نہ کریں، یہ جان لیں یہ آئینی عدالت آپ کو یہ سب نہیں کرنے دے گی۔ ایف آئی اے نے عدالت سے تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا۔
دوران سماعت شہزاد اکبر نے کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا گیا آج بھی نام اسٹاپ لسٹ پر ہیں، یہ چاہتے ہیں تو ہم خود ہی اڈیالہ جیل چلے جاتے ہیں۔ شہزاد اکبر کی بات پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ازراہ تفنن ریمارکس دیئے کہ کیا آپ جیل جانا چاہتے، جس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو شہزاد اکبر اور شہباز گل کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے دونوں کے نام آج ہی اسٹاپ لسٹ سے نکالنے کا حکم دے دیا۔ عدالت عالیہ نے وزارت داخلہ اور ایف آئی اے سے اسٹاپ لسٹ میں نام شامل کرنے پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت اٹھارہ اپریل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے فوری بعد شہزاد اکبر اور شہباز گل کے نام اسٹاپ لسٹ میں شامل کئے جانے کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہزاد اکبر اور شہباز گل نے نام اسٹاپ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
درخواست گزاروں کا موقف تھا ان پر کوئی مقدمہ یہاں تک کہ الزام بھی نہیں، اس کے باوجود بیرون ملک روانگی پر پابندی خلاف قانون ہے۔