سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پولیس کی جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے نئی سپیشل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ ارشد شریف کی والدہ، سیکرٹری داخلہ و اطلاعات، ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے، ایڈیشل اٹارنی جنرل عامر رحمان، آئی جی اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی، اس کے علاوہ تھانہ رمنا میں درج قتل کی ایف آئی آر کی کاپی بھی عدالت میں پیش کی گئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پڑھ کر سنائی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا میں ہائی کمیشن متعلقہ حکام کیساتھ رابطے میں ہے، ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ مبینہ طور پر فائرنگ کرنے والے کون ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس اہلکار ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فائرنگ کرنیوالوں نے پاکستانی ٹیم کو کیا بتایا رپورٹ میں نہیں لکھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ رات ایک بجے عدالت کو رپورٹ فراہم کی گئی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا میں 4 دن پہلے بننے والی نئی کابینہ سے ملاقات کی کوشش جاری ہے ، کینیا کی حکومت کیس کی تحقیقات کر رہی ہے، وزارت خارجہ پاکستان میں کینیا کے سفارتخانے کیساتھ رابطے میں ہے، گزشتہ روز عدالتی حکم پر ایف آئی آر درج کی گئی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیس نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ فائرنگ کرنیوالے اہلکاروں کے نام تک رپورٹ میں نہیں لکھے گئے، جسٹس مندو خیل نے کہا کہ مقدمہ میں کس بنیاد پر 3 لوگوں کو نامزد کیا گیا؟ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا؟
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ تنبیہ کر رہا ہوں، انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، حکومت بھی سنجیدگی سے لے، عدالت صرف آپ کو سننے کیلئے نہیں بیٹھی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے افسر شامل کرنے کی منظوری دی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق مقدمہ میں نامزد ملزموں کے اہم شخصیات سے رابطے ہیں، حکومت کا کام ہے ایسے افسران لگائے جو آزادانہ تحقیقات کر سکیں۔
دوران سماعت ارشد شریف کی والدہ بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں،ان کا کہنا تھا کہ میں سپریم کورٹ کی مشکور ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ شکریہ کی ضرورت نہیں، عدالت اپنا فرض ادا کررہی ہے۔
والدہ ارشد شریف نے کہا کہ پاکستان سے جس طرح ارشد کو نکالا گیا رپورٹ میں لکھا ہے، ارشد کو جیسے دبئی سے نکالا وہ بھی رپورٹ میں ہے، مجھے صرف اپنے بیٹے کیلئے انصاف چاہئے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ کو تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانا ہو گا، والدہ ارشد شریف نے جواب دیا کہ تحقیقاتی ٹیم کو بیان پہلے بھی ریکارڈ کرا چکی ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ نے کئی لوگوں کے نام دیئے ہیں ،حکومت قانون کے مطابق تمام زاویوں سے تفتیش کرے، فوجداری مقدمہ ہے اس لئے عدالت نے کمیشن قائم نہیں کیا، کیس شروع ہی خرم اور وقار سے ہوتا ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے پولیس کی جے آئی ٹی مسترد کردی ،عدالت نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے سپیشل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔